دنیا میں قوموں کی شناخت ان کے اصولوں اور اقدار سے ہوتی ہے۔ اسلام نے ہمیں ایک امت کی شکل میں جینے کا درس دیا، اور یہی اتحاد مسلمانوں کی سب سے بڑی طاقت تھا۔ قرآن کہتا ہے:
"تم سب اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور فرقہ بندی میں نہ پڑو۔”
مگر آج، افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ امت مسلمہ اس رسی کو چھوڑ چکی ہے، اور اس کے نتیجے میں ہماری طاقت منتشر ہو گئی ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ جب مسلمان متحد تھے، دنیا ان کے قدموں میں جھکتی تھی۔ خلافت راشدہ کے دور میں مسلمانوں نے نہ صرف دنیا کو بہترین عدل و انصاف دیا بلکہ علم، حکمت، اور ثقافت کا چراغ بھی روشن کیا۔ سلطنت عثمانیہ کا زوال ہماری وحدت کے خاتمے کی داستان سناتا ہے، اور آج کی حالت تو یہ ہے کہ ہم قوموں کی صف میں اپنے وقار سے محروم ہو چکے ہیں۔
ہماری وحدت کا خاتمہ کیسے ہوا؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو ہمیں اپنی اجتماعی ناکامیوں پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ وطن پرستی نے ہمیں ایک قوم کے بجائے مختلف ٹکڑوں میں بانٹ دیا ہے۔ ہر ملک، ہر قوم اپنی سرحدوں کے اندر محدود ہو کر رہ گئی ہے، اور اس محدود سوچ نے امت کے تصور کو دھندلا کر دیا ہے۔
اقبال نے اسی حقیقت کو بڑے زور دار الفاظ میں بیان کیا تھا:
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے، وہ ملت کا کفن ہے
وطن سے محبت فطری ہے، اور اسلام اسے روکتا بھی نہیں، لیکن مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے جب یہ محبت ہماری اصل شناخت، یعنی امت مسلمہ، پر غالب آ جاتی ہے۔ ایک وقت تھا جب ہم ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک تھے۔ آج ہم ان حدود کے قیدی بن چکے ہیں جو ہم نے خود کھینچی ہیں۔
ہماری سیاسی قیادت، جو امت کی رہنمائی کی ذمہ دار تھی، اب خود مفادات کی سیاست کا شکار ہو چکی ہے۔ ایک طرف ہمارے اندرونی اختلافات نے ہمیں کمزور کر دیا ہے، اور دوسری طرف بیرونی طاقتیں ہمیں تقسیم کرنے کے لیے ہمیشہ تیار رہتی ہیں۔ یہ ایک کھلا راز ہے کہ دنیا کی بڑی طاقتیں چاہتی ہیں کہ مسلمان کبھی ایک پلیٹ فارم پر نہ آئیں، کیونکہ ہمارا اتحاد ہی ہماری اصل طاقت ہے۔
اقبال نے ہمیں بار بار یاد دلایا کہ مسلمانوں کی اصل طاقت ان کا ایک امت ہونا ہے:
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کاشغر
اب سوال یہ ہے کہ اس زوال کا علاج کیا ہے؟ کیا ہم اپنی تاریخ سے کچھ سیکھ سکتے ہیں؟ کیا ہم اپنی نئی نسل کو یہ سبق دے سکتے ہیں کہ اسلام کے پیروکار ہونے کا مطلب صرف عبادات تک محدود نہیں، بلکہ یہ ہمیں ایک امت بن کر جینے کا درس دیتا ہے؟ یہ کام مشکل ضرور ہے، لیکن ناممکن نہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی ترجیحات کو بدلیں۔ مدارس اور جامعات میں ایسا نصاب متعارف کرائیں جو امت کے تصور کو زندہ کرے۔ علماء اپنے خطبوں میں اختلافات کو ہوا دینے کے بجائے اتحاد کا درس دیں۔ میڈیا، جو آج زیادہ تر نفرت کے بیج بوتا ہے، اسے ایک مثبت پیغام کے فروغ کا ذریعہ بنایا جائے۔ اور سب سے اہم، ہر مسلمان اپنے دل میں یہ عزم کرے کہ وہ امت مسلمہ کا حصہ ہے اور اس کا کردار اسی وحدت کو مضبوط کرنے میں ہے۔
یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ اگر آج بھی ہم اپنی سمت درست کر لیں اور اللہ کی رسی کو تھام لیں، تو کوئی طاقت ہمیں شکست نہیں دے سکتی۔ یہ امت ایک بار پھر دنیا کے سامنے اپنی عظمت کا لوہا منوا سکتی ہے، بس شرط یہ ہے کہ ہم اپنے درمیان کی دیواریں گرا دیں اور ایک جسم بن جائیں، جیسا کہ ہمارے نبی ﷺ نے فرمایا:
"مسلمان آپس میں ایک جسم کی مانند ہیں؛ اگر جسم کے کسی حصے کو تکلیف ہو تو پورا جسم درد محسوس کرتا ہے۔”
وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنی حقیقت کو پہچانیں اور ان نظریاتی دیواروں کو گرا دیں جو ہمیں ایک دوسرے سے جدا کرتی ہیں۔ تب ہی ہم اس امت کی عظمت کو دوبارہ حاصل کر سکتے ہیں۔