واشنگٹن :امریکی کمیشن نے بھارت میں مسلم سماجی کارکنوں کی گرفتاری پر تحفظات کا اظہارکردیا ،طلاعات کےمطابق امریکی کمشن برائے آزادی مذاہب (یو ایس سی آئی آر ایف) نے بھارت میں شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف احتجاج کرنے والے مسلمان سماجی کارکنوں کی گرفتاری پر تحفظات کا اظہار کردیا۔رپورٹ میں خاص طور پر بھارت کے نئے شہریت کے قانون کے نفاذ پر تنقید کی گئی۔

 

یو ایس سی آئی آر ایف نے ٹوئٹ میں کہا کہ ’کورونا وائرس کی وجہ سے اس وقت جبکہ بھارت کو قیدیوں کی رہائی پر غور کرنا چاہے وہ بنیادی حقوق کے حق میں احتجاج کرنے والوں کو نشانہ بنا رہا ہے‘یو ایس سی آئی آر ایف نے خصوصی طور پر حاملہ سماجی رکن صفورا زرگر کا نام واضح کیا جنہیں نئی دہلی میں سی اے اے کے خلاف احتجاج کے وقت گرفتار کیا گیا۔

اطلاعات کے مطابق 27 سالہ صفورا زرگر کو 10 اپریل کو گرفتار کیا گیا تھا اور اس پر ملک کی غیر قانونی سرگرمیاں روک تھام ایکٹ 2019 (یو اے پی اے) کے تحت الزام عائد کیا گیا تھا۔واضح رہے کہ گرفتاری کے وقت وہ 3 ماہ کی حاملہ تھیں۔

صفورا زرگر دہلی کی جامعہ ملیہ یونیورسٹی میں ایک ریسرچ فیلو اور جامعہ کوآرڈینیشن کمیٹی (جے سی سی) کی میڈیا کوآرڈینیٹر تھی انہوں نے بھارتی حکومت کے خلاف گزشتہ برس دسمبر میں منظور کیے گئے شہریت کے ترمیمی قانون کے خلاف بھرپور احتجاج کا اہتمام کیا تھا۔

 

 

امریکی ادارے کی جانب سے دوسرے ٹوئٹ میں کہا گیا کہ 2020 کے لیے اپنی سالانہ رپورٹ میں کمیشن نے سفارش کی کہ 2019 کے دوران بھارت کو اس کے ’منظم انداز میں مذہبی آزادی کی بے حد خلاف ورزیوں‘ پر ’تشویش زدہ ملک قرار دے دیا جائے۔امریکی ایجنسی نے کہا کہ بدقسمتی سے بھارت میں مسلمانوں کے خلاف یہ منفی رجحان 2020 تک جاری ہیں۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ قانون مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کرتا ہے اور اس سے یہ تشویش مزید بڑھ گئی ہے کہ مودی کی انتظامیہ ہندوستان کی سیکولر روایات کو پامال کررہی ہے۔

واضح رہے کہ امریکا نے عالمی مذاہب کو حاصل مذہبی آزادی سے متعلق سالانہ رپورٹ 2018 جاری کی تھی جس میں تصدیق کی گئی تھی کہ بھارت میں انتہاپسند ہندوؤں نے مسلمان اور ہندوؤں کی نچلی ذات ‘دلت’ کو دھمکیاں دیں، ہراساں کیا اور تشدد کا نشانہ بنایا۔رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ 2014 میں نریندر مودی کے برسر اقتدار آنے کے بعد میسح برادری کے پیروکاروں کو بھی تبدیلی مذہب کے لیے زور دیا گیا۔

امریکی رپورٹ میں کہا گیا کہ ’اس حقیقت کے باوجود کہ بھارتی اعداد وشمار میں واضح ہے کہ گذشتہ 2 برسوں میں لسانی فسادات کی تعداد میں اضافہ ہوا لیکن نریندر مودی کی انتظامیہ نے مذکورہ مسئلے کے حل پر کبھی توجہ نہیں دی‘۔

Shares: