یونیورسٹی آف میانوالی کے پروفیسر کی جنسی ہراسانی پر طالبات کے ہولناک انکشافات ، حکام سے انصاف کی اپیل کردی

0
139

یونیورسٹی آف میانوالی کے پروفیسر کی جنسی ہراسانی پر طالبات کے ہولناک انکشافات ، حکام سے انصاف کی اپیل کردی

باغی ٹی وی : گزشتہ روز یونیورسٹی آف میانوالی کی ایک طالبہ نے ٹوئٹر پر ایک ہولناک انکشاف کیا جس کے بعد سوشل میڈیا پر ایک تہلکہ مچ گیا۔طالبہ کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی آف میانوالی کے زوالوجی ڈپارٹمنٹ کے ایک پروفیسر طالبات کو جنسی طور پر ہراساں کرتے ہیں اور پھر ان کو بلیک میل بھی کرتے ہیں۔ مزید برآں طالبات نے ایک ہولناک انکشاف یہ کیا کہ سولہ سے زائد طالبات اس پروفیسر کے استحصال کا شکار ہو چکی ہیں جو کہ متعلقہ حکام سے انصاف کی طلب گار ہیں۔
اس حوالے سے تفصیلات معلوم کرنے پر معلوم پڑا کہ وہ پروفیسر جس کے اوپر یہ الزام عائد کیا گیا اس کا تعلق بنیادی طور پر یونیورسٹی آف سرگودھا سے ہے۔ یونیورسٹی آف میانوالی میں تعینات ہونے سے پہلے موصوف یونیورسٹی آف سرگودھا میں اپنے فرائض سر انجام دے رہے تھے وہاں بھی ان کے خلاف کچھ ایسی ہی شکایات سامنے آئیں طالبات تو وائس چانسلر ڈاکٹر اشتیاق احمد صاحب نے تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی جس نے تحقیقات کے بعد پروفیسر صاحب کو مورد الزام ٹھہرایا کیا مگر ان کے خلاف کسی بھی قسم کی کاروائی کرنے کی بجائے وائس چانسلر صاحب نے انہیں یونیورسٹی آف میانوالی (سابقہ سب کیمپس یونیورسٹی آف سرگودھا،میانوالی) میں تعینات کر دیا۔ بات یہاں ختم نہیں ہوتی میانوالی آنے کے بعد بھی موصوف اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے اور طالبات کو جنسی ہراسگی کا نشانہ بناتا رہا اور طالبات کو شکایت کرنے سے روکنے کے لیے وہ دھمکیاں دیتا رہا۔ بالآخر طالبات نے ہمت سے کام لیا اور اس وقت کے کیمپس ڈائریکٹر اور موجودہ رجسٹرار ڈاکٹر توقیر احمد وڑائچ کو باقاعدہ درخواست کی صورت میں شکایت کی جس پر ڈائریکٹر صاحب نے تمام طالبات کو اور پروفیسر کو اپنے دفتر میں طلب کیا لیکن جن پروفیسر کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کی بجائے موقع پر ہی طالبات کو بہلا، دھمکا کر زبردستی راضی نامہ کرا دیا۔ جس میں طالبات کی ذرہ برابر بھی رضامندی نا تھی۔

ڈائریکٹر صاحب کے اس فیصلے کے بعد پروفیسر کو مزید حوصلہ ملا کہ کوئی ان کو پوچھنے والا نہیں ہے لہٰذا انہوں نے پہلے سے بھی بڑھ کر طالبات کو ہراساں کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔
اب طالبات نے پرائم منسٹر پورٹل کا سہارا لینے کا سوچا اور پرائم منسٹر پورٹل پر اپنی شکایت درج کی تو اس کے متعلق یہ ریمارکس دیے گئے کہ یہ معاملہ کافی پہلے دونوں فریقین کی مرضی سے حل ہوچکا ہے حالانکہ حقیقت اس کے برعکس تھی اور اور ماضی کے راضی نامے میں طالبات کی کسی قسم کی رضامندی شامل نہیں تھی طالبات صرف اور صرف پروفیسر کے خلاف کارروائی چاہتیں تھی اور آج بھی چاہتیں ہیں
تمام تر معاملے کی تفصیلات جاننے کے بعد پہلا سوال تو یہ اٹھتا ہے کہ جب تمام متعلقہ حکام اس واقعہ سے آگاہ ہیں تو پروفیسر صاحب کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی گئی آخر کیا وجہ ہے کہ میانوالی کی بیٹی کو کہ جہاں پر بیٹیوں کا گھر سے باہر نکلنا بھی معیوب سمجھا جاتا ہے اس کو ٹویٹر جیسے سوشل میڈیا کے عالمی فورم پر اپنی آواز اٹھانا پڑی؟؟؟ آخر کیا وجہ تھی کہ میانوالی کی بیٹی نے تنگ آکر یہ الفاظ استعمال کیے کہ "کیا ہمیں اس وقت انصاف ملے گا جب ہم خود کشی کرلی گی؟؟؟”
اس معاملے پر سب سے پہلے تو یونیورسٹی آف سرگودھا کے وائس چانسلر ڈاکٹر اشتیاق احمد کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جانی چاہیے کہ انہوں نے کمیٹی کے واضح فیصلے کے باوجود ایک مجرم پروفیسر کو کس بنیاد پر یونیورسٹی آف سرگودھا کے سب کیمپس میانوالی میں تعینات کیا؟؟؟
دوسری کاروائی یونیورسٹی آف میانوالی کے رجسٹرار ڈاکٹر توقیر احمد وڑائچ کے خلاف ہونی چاہیے جنہوں نے طالبات کی شکایات پر کوئی کارروائی کرنے کی بجائے طالبات کو ہی ڈرا دھمکا کر زبردستی راضی نامے پر اکسایا اور پروفیسر کو یہ ہمت دی کہ وہ پہلے سے بڑھ کر طالبات کو ہراساں کر سکے اور پھر اس پروفیسر کے خلاف سخت سے سخت کاروائی ہونی چاہیے جو میانوالی کی بیٹیوں کی عزت کے ساتھ کھلواڑ کرتا رہا ان کو جنسی طور پر ہراساں کرتا رہا اور ان کے مستقبل کو خراب کرنے کی دھمکیاں دیتا رہا۔

اب چونکہ پنجاب گورنمنٹ نےایکشن لےلیاھے دیکھتےہیں اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ھے۔ ہم زمہ داروں کےخلاف سخت سے سخت کارواٸی کامطالبہ کرتے ہیں۔

Leave a reply