یونیورسٹی آف نارووال میں 86 خاندانوں کامعاشی تحفظ کیوں ضروری ہے اور اصل مسئلہ ہے کیا؟
تفصیلات کے مطابق آج سے سات سال قبل ضلع نارووال میں موجود گورنمنٹ ڈگری کالج فار بوائز کو ستمبر 2014 میں یونیورسٹی آف گجرات کے سب کیمپس کا درجہ دے دیا گیاپہلے ایک سال میں اس سب کیمپس میں 35 لوگ عارضی حیثیت میں بطور CTI کام کرتے رہے –
بعد ازاں اسی سب کیمپس کے لیےیونیورسٹی آف گجرات نے فروری 2016 میں باقاعدہ 65 لیکچرارز سمیت 86 لوگوں کو لانگ ٹرم کنٹرکٹ پر بھرتی کیا جو کہ باقاعدہ اشتہار، سلیکشن بورڈ اور سینڈیکیٹ کے تحت بھرتی ہوئے اس ادارے کا حصہ بنے اور مسلسل اس ادارے میں کام کرتے رہے –
مارچ 2018 میں یونیورسٹی آف گجرات کے اس سب کیمپس کو باقاعدہ ایک خود مختار یونیورسٹی کا درجہ ملا جسے یونیورسٹی آف نارووال کا نام دیا گیا اور تمام ملازمین کو ایک ایکٹ کے تحت اس نئی یونیورسٹی میں منتقل کر دیئے گئے۔
موجودہ حکومت نے پنجاب ریگولرائزیشن آف سروسز ایکٹ 2018 کے تحت بے شمار یونیورسٹیز کے سینکڑوں ملازمین کو ریگولر کردیا ہے جن میں یونیورسٹی آف گجرات، یونیورسٹی آف ایگریکلچر فیصل آباد، یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی، یونیورسٹی آف ایگریکلچر راولنارووالپنڈی، یونیورسٹی آف ویٹرنری اینڈ اینیمل سائنسز، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد اور اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے اساتذہ اور ملازمین شامل ہیں لیکن یونیورسٹی آف نارووال کے اساتذہ تاحال ریگولر نہ ہو سکے۔
لیکن پچھلے 6 سال سے نارووال یونیورسٹی میں کسی بھی قسم کی کوئی بھرتی نہیں ہوئی اور یہی لوگ اس ادارے کی مسلسل بھا گ دوڑ سنبھا ل رہے ہیں یونیورسٹی کی انتظامیہ نے انتہائی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان لوگوں کے مستقبل کا تعین کیے بغیر اب نئے سرے سے بھرتیاں شروع کر دی ہیں اب یہ اساتذہ اپنی ملازمت کے چھ سال کی تکمیل کے بعد قانون کے مطابق اپنی جاب کے ریگولر کیے جانے کا مطالبہ کر رہے ہیں اور پچھلے دو ہفتوں سے ایک پرامن اجتجاج کئے ہوئے ہیں۔
یونیورسٹی آف نارووال کے اساتذہ کا وزیر اعلیٰ پنجاب، گورنر پنجاب اور منسٹر ہائر ایجوکیشن پنجاب سے مطالبہ ہے کہ ان 86 افراد کو ریگولر کر کے ان کے خاندانوں کا تحفظ کیا جائے اور ان کے روزگار کا مسئلہ حل کیا جائے۔