اردو کے عظیم شاعر،فراق گورکھپوری

0
46
فراق گورکھپوری

مدتیں قید میں گزریں مگر اب تک صیاد
ہم اسیران قفس تازہ گرفتار سے ہیں

فراق گورکھپوری

اردو کے ایک عظیم شاعر اور نقاد فراق گورکھپوری کا اصل نام رگھو پتی سہائے ہے ۔وہ 28 اگست 1896ء میں گورکھپور میں پیدا ہوئے۔ان کے والد گورکھ پرشاد زمیندار تھے اور گورکھپور میں وکالت کرتے تھے۔ان کا آبائی وطن گورکھپور کی تحصیل بانس گاؤں تھا اور ان کا گھرانہ پانچ گاؤں کے کائستھ کے نام سے مشہور تھا۔۔فراق کے والد بھی شاعر تھے اور عبرت تخلص کرتے تھے۔فراق نے اردو اور فارسی کی تعلیم گھر پر حاصل کی اس کے بعد میٹرک کا امتحان گورنمنٹ جوبلی کالج گورکھپور سےسکنڈ ڈویژن میں پاس کیا ۔اسی کے بعد 18 سال کی عمر میں ان کی شادی کشوری دیوی سے کر دی گئی جو فراق کی زندگی میں ایک ناسور ثابت ہوئی۔فراق کو نوجوانی میں ہی شاعری کا شوق پیدا ہو گیا تھا اور 1916 میں جب ان کی عمر 20 سال کی تھی اور وہ بی اے کے طالب علم تھے، پہلی غزل کہی۔پریم چند اس زمانہ میں گورکھپور میں تھے اور فراق کے ساتھ ان کے گھریلو تعلقات تھے۔پریم چند نے ہی فراق کی ابتدائی غزلیں چھپوانے کی کوشش کی اور زمانہ کے ایڈیٹردیا نرائن نگم کو بھیجیں۔فراق نے بی اے سنٹرل کالج الہ آباد سے پاس کیا اور چوتھی پوزیشن حاصل کی۔اسی سال فراق کے والد کا انتقال ہو گیا۔یہ فراق کے لئے اک بڑا سانحہ تھا۔چھوٹے بھائی بہنوں کی پرورش اور تعلیم کی ذمہ داری فراق کے سر آن پڑی۔بے جوڑ دھوکہ کی شادی اور والد کی موت کے بعد گھرییلو ذمہ داریوں کے بوجھ نے فراق کو توڑ کر رکھ دیا وہ بے خوابی کے شکار ہو گئے اورمزید تعلیم کا سلسلہ منقطع کرنا پڑا۔ اسی زمانہ میں وہ ملک کی سیاست میں شریک ہوئے۔سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے 1920 میں ان کو گرفتار کیا گیا اور انہوں نے 18 ماہ جیل میں گزارے۔ 1922 میں وہ کانگرس کے انڈر سیکریٹری مقرر کئے گئے۔ وہ ملک کی سیاست میں ایسے وقت پر شامل ہوئے تھے جب سیاست کا مطلب گھر کو آگ لگانا ہوتا تھا نہرو خاندان سے ان کےگہرے مراسم تھے اور اندرا گاندھی کو وہ بیٹی کہہ کر خطاب کرتے تھے۔مگر آزادی کے بعد انہوں نے اپنی سیاسی خدمات کو بھنانے کی کوشش نہیں کی۔وہ ملک کی محبت میں سیاست میں گئے تھے۔،سیاست ان کا میدان نہیں تھی۔1930 میں انھوں نے پرائیویٹ امیدوار کی حیثیت سے آگرہ یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں ایم اے کا امتحان امتیاز کے ساتھ پاس کیا۔ اور کوئی درخواست یا انٹرویو دئے بغیر الہ آباد یونیورسٹی میں لیکچرر مقرر ہو گئے۔اس زمانہ میں الہ آباد یونیورسٹی کا انگریزی کا شعبہ سارے ملک میں شہرت رکھتا تھا۔ امر ناتھ جھا اور ایس ایس دیب جیسے مشاہیر اس شعبہ کی زینت تھے۔لیکن فراق نے اپنی شرائط پر زندگی بسر کی۔وہ ایک آزاد طبیعت کے مالک تھے۔مہینوں کلاس میں نہیں جاتے تھے نہ حاضریی لیتے تھے۔اگر کبھی کلاس میں گئے بھی تو نصاب سے الگ ہندی یا اردو شاعری یا کسی دوسرے موضوع پر گفتگو شروع کر دیتے تھے، اسی لئے ان کو ایم اے کی کلاسیں نہیں دی جاتی تھیں۔ورڈسورتھ کے عاشق تھے اور اس پر گھنٹوں بول سکتے تھے۔ فراق نے 1952 میں شبّن لال سکسینہ کے اصرار پر پارلیمنٹ کا چناؤ بھی لڑا اور ضمانت ضبط کرائی۔نجی زندگی میں فراق بے راہ روی کا مجسمہ تھے۔ان کے مزاج میں حد درجہ خود پسندی بھی تھی۔ان کے کچھ شوق ایسے تھے جن کو معاشرہ میں اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا لیکن نہ تو وہ ان کو چھپاتے تھے اور نہ شرمندہ ہوتے تھے۔ان کے عزیز و اقارب بھی، خصوصاً چھوٹے بھائی یدو پتی سہائے،جن کو وہ بہت چاہتے تھے اور بیٹے کی طرح پالا تھا،رفتہ رفتہ ان سے کنارہ کش ہو گئے تھے جس کا فراق کو بہت صدمہ تھا۔ان کے اکلوتے بیٹے نے سترہ اٹھارہ سال کی عمر ممیں خودکشی کر لی تھی۔بیوی کشوری دیوی 1958 میں اپنے بھائی کے پاس چلی گئی تھیں اور ان کے جیتے جی واپس نہیں آئیں۔اس تنہائی میں شراب و شاعری ہی فراق کی مونس و غمگسار تھی۔1958 میں وہ یونیورسٹی سے ریٹائر ہوئے۔ گھر کے باہر فراق معزز،محترم اور عظیم تھے لیکن گھر کے اندر وہ ایک بے بس وجود تھے جس کا کوئی پرسان حال نہ تھا۔وہ محرومی کا ایک چلتا پھرتا مجسمہ تھے جو اپنے اوپر آسودگی کا لباس اوڑھے تھا۔

باہر کی دنیا نے ان کی شاعری کے علاوہ ان کی حاضر جوابی،بزلہ سنجی،ذہانت،علم و دانش اور سخن فہمی کو ہی دیکھا۔فراق اپنے اندر کے آدمی کو اپنے ساتھ ہی لے گئے۔ب۔بطور شاعر زمانہ نے ان کی قدر دانی میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔1961 میں ان کو ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ سے نوازا گیا۔1968 میں انہیں سوویت لینڈ نہرو ایوارڈ دیا گیا۔حکومت ہند نے ان کو پدم بھوشن خطاب سے سرفراز کیا۔1970 میں وہ ساہتیہ اکیڈمی کے فیلو بنائے گئے اور "گل نغمہ” کے لئے ان کو ادب کے سب سے بڑے اعزاز گیان پیٹھ ایوارڈ سے نوازا گیا جو ہندوستان میں ادب کا نوبیل انعام تصور کیا جاتا ہے۔1981 میں ان کو غالب ایوارڈ بھی دیا گیا ۔جوش ملیح آبادی نے فراق کے بارے میں کہا تھا "میں فراق کو قرنوں سے جانتا ہوں اور ان کے اخلاق کا لوہا مانتا ہوں۔مسائل علم و ادب پر جب ان کی زبان کھلتی ہے تو لفظوں کے لاکھوں موتی رولتے ہیں اور اس افراط سے کہ سامعین کو اپنی کم سوادی کا احساس ہونے لگتا ہے۔۔۔جو شخص یہ تسلیم نہیں کرتا کہ فراق کی عظیم شخصیت ہندوسامنت کے ماتھے کا ٹیکا،اردو زبان کی آبرو اور شاعری کی مانگ کا سیندور ہے وہ خدا کی قسم کور مادر زاد ہے” 3 مارچ 1982 کو،حرکت قلب بند ہو جانے سے فراق اردو ادب کو داغ فراق دے گئے اور سرکاری اعزاز کے ساتھ ان کی آخری رسوم ادا کی گئیں۔فراق اس تہذیب کا مکمل نمونہ تھے جسے گنگا جمنی تہذیب کہا جاتا ہے وہ شاید اس قبیلہ کے آخری فرد تھے جسے ہم مکمل ہندوستانی کہہ سکتے ہیں۔

شاعری کے لحاظ سے فراق بیسویں صدی کی منفرد آواز تھے۔جنسیت کو احساس و ادراک اور فکر و فلسفہ کا حصہ بنا کر محبوب کے جسمانی روابط کو غزل کا حصہ بنانے کا سہرا فراق کو جاتا ہے۔جسم کس طرح کائنات بنتا ہے،عشق کس طرح عشق انسانی میں تبدیل ہوتا ہے اور پھر وہ کس طرح حیات و کائنات سے رشتہ استوار کرتا ہے یہ سب فراق کی فکر اور شاعری سے معلوم ہوتا ہے۔فراق شاعر کے ساتھ ساتھ ایک مفکّر بھی تھے۔راست اور معروضی انداز فکر ان کے مزاج کا حصہ تھا۔فراق کا عشق رومانی اور فلسفیانہ کم،سماجی اور دنیاوی زیادہ ہے۔فراق تلاش عشق میں زندگی کی سمت و رفتار اور بقاء و ارتقاء کی تصویر کھینچتے ہیں۔ فراق کے وصل کا تصور دو جسموں کا نہیں دو ذہنوں کا ملاپ ہے۔وہ کہا کرتے تھ تھے کہ اردو ادب نے ابھی تک عورت کے تصور کو جنم نہیں دیا۔اردو زبان میں شکنتلا،ساوتری اور سیتا نہیں۔جب تک اردو ادب دیویت کو نہیں اپنائے گا اس میں ہندوستان کا عنصر داخل نہیں ہو گا اور اردو ثقافتی حیثیت سے ہندوستان کی ترجمان نہیں ہو سکے گی۔کیونکہ ہندوستان کوئی بینک نہیں جس میں رومانی اور ثقافتی حیثیت سے الگ الگ کھاتے کھولے جا سکیں۔فراق نے اردو زبان کو نئے گمشدہ الفاظ سے روشناس کرایا ان کے الفاظ زیادہ تر روز مرّہ کی بول چال کے،نرم،سبک اور میٹھے ہیں۔فراق کی شاعری کی ایک بڑی خوبی اور خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے عالمی تجربات کے ساتھ ساتھ تہذیبی قدروں کی عظمت اور اہمیت کو سمجھا اور انہیں شعری پیکر عطا کیا۔۔۔فراق کے شعر دل پر اثر انداز ہونے کے ساتھ ساتھ دعوت فکر بھی دیتے ہیں اور ان کی یہی صفت فراق کو دوسرے تمام شعراء سے ممتاز کرتی ہے۔
3 مارچ 1982ء اردو کے عظیم شاعر فراق گورکھپوری کی وفات ہوئی ۔

فراق گورکھپوری کے اشعار

دل غمگیں کی کچھ محویتیں ایسی بھی ہوتی ہیں
کہ تیری یاد کا آنا بھی ایسے میں کھٹکتا ہے

۔۔۔۔۔***۔۔۔۔۔۔۔۔

اٹھی ہے چشم ساقیٔ مے خانہ بزم پر
یہ وقت وہ نہیں کہ حلال و حرام دیکھ

۔۔۔۔۔***۔۔۔۔۔۔۔۔

مدتیں قید میں گزریں مگر اب تک صیاد
ہم اسیران قفس تازہ گرفتار سے ہیں

۔۔۔۔۔***۔۔۔۔۔۔۔۔

قفس سے چھٹ کے وطن کا سراغ بھی نہ ملا
وہ رنگ لالہ و گل تھا کہ باغ بھی نہ ملا

۔۔۔۔۔***۔۔۔۔۔۔۔۔

اس پرسش کرم پہ تو آنسو نکل پڑے
کیا تو وہی خلوص سراپا ہے آج بھی

۔۔۔۔۔***۔۔۔۔۔۔۔۔

تمہیں سچ سچ بتاؤ کون تھا شیریں کے پیکر میں
کہ مشت خاک کی حسرت میں کوئی کوہکن کیوں ہو

۔۔۔۔۔***۔۔۔۔۔۔۔۔
دل وارفتۂ دیدار کی اللہ رے محویت
تصور میں ترے وہ تیری صورت بھول جاتا ہے

۔۔۔۔۔***۔۔۔۔۔۔۔۔
ترغیب گناہ لحظہ لحظہ
اب رات جوان ہو گئی ہے

۔۔۔۔۔***۔۔۔۔۔۔۔۔

جہاں میں تھی بس اک افواہ تیرے جلووں کی
چراغ دیر و حرم جھلملائے ہیں کیا کیا
۔۔۔۔۔***۔۔۔۔۔۔۔۔

تصور میں تجھے ذوق ہم آغوشی نے بھینچا تھا
بہاریں کٹ گئی ہیں آج تک پہلو مہکتا ہے

۔۔۔۔۔***۔۔۔۔۔۔۔۔
کبھی ہو سکا تو بتاؤں گا تجھے راز عالم خیر و شر
کہ میں رہ چکا ہوں شروع سے گہے ایزد و گہے اہرمن
۔۔۔۔۔***۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ فسوں پھونکا کہ وحشی بھی مہذب ہو گئے
کر گیا کیا سحر مانا عشق بازی گر نہ تھا

۔۔۔۔۔***۔۔۔۔۔۔۔۔

تمام شبنم و گل ہے وہ سر سے تا بہ قدم
رکے رکے سے کچھ آنسو رکی رکی سی ہنسی

۔۔۔۔۔***۔۔۔۔۔۔۔۔
اسی دنیا کے کچھ نقش و نگار اشعار ہیں میرے
جو پیدا ہو رہی ہے حق و باطل کے تصادم سے
۔۔۔۔۔***۔۔۔۔۔۔۔۔

فرش مے خانہ پہ جلتے چلے جاتے ہیں چراغ
دیدنی ہے تری آہستہ روی اے ساقی
۔۔۔۔۔***۔۔۔۔۔۔۔۔
جنت صوفیا نثار دہر کی مشت خاک پر
عاشق ارض پاک کو دعوت لا مکاں نہ دے
۔۔۔۔۔***۔۔۔۔۔۔۔۔

فراق گورکھپوری کی غزلیں

بہت پہلے سے ان قدموں کی آہٹ جان لیتے ہیں
تجھے اے زندگی ہم دور سے پہچان لیتے ہیں

مری نظریں بھی ایسے قاتلوں کا جان و ایماں ہیں
نگاہیں ملتے ہی جو جان اور ایمان لیتے ہیں

جسے کہتی ہے دنیا کامیابی وائے نادانی
اسے کن قیمتوں پر کامیاب انسان لیتے ہیں

نگاہ بادہ گوں یوں تو تری باتوں کا کیا کہنا
تری ہر بات لیکن احتیاطاً چھان لیتے ہیں

طبیعت اپنی گھبراتی ہے جب سنسان راتوں میں
ہم ایسے میں تری یادوں کی چادر تان لیتے ہیں

خود اپنا فیصلہ بھی عشق میں کافی نہیں ہوتا
اسے بھی کیسے کر گزریں جو دل میں ٹھان لیتے ہیں

حیات عشق کا اک اک نفس جام شہادت ہے
وہ جان ناز برداراں کوئی آسان لیتے ہیں

ہم آہنگی میں بھی اک چاشنی ہے اختلافوں کی
مری باتیں بعنوان دگر وہ مان لیتے ہیں

تری مقبولیت کی وجہ واحد تیری رمزیت
کہ اس کو مانتے ہی کب ہیں جس کو جان لیتے ہیں

اب اس کو کفر مانیں یا بلندیٔ نظر جانیں
خدائے دو جہاں کو دے کے ہم انسان لیتے ہیں

جسے صورت بتاتے ہیں پتہ دیتی ہے سیرت کا
عبارت دیکھ کر جس طرح معنی جان لیتے ہیں

تجھے گھاٹا نہ ہونے دیں گے کاروبار الفت میں
ہم اپنے سر ترا اے دوست ہر احسان لیتے ہیں

ہماری ہر نظر تجھ سے نئی سوگندھ کھاتی ہے
تو تیری ہر نظر سے ہم نیا پیمان لیتے ہیں

رفیق زندگی تھی اب انیس وقت آخر ہے
ترا اے موت ہم یہ دوسرا احسان لیتے ہیں

زمانہ واردات قلب سننے کو ترستا ہے
اسی سے تو سر آنکھوں پر مرا دیوان لیتے ہیں

فراقؔ اکثر بدل کر بھیس ملتا ہے کوئی کافر
کبھی ہم جان لیتے ہیں کبھی پہچان لیتے ہیں
———*****————–
تم ہو جہاں کے شاید میں بھی وہاں رہا ہوں
کچھ تم بھی بھولتے ہو کچھ میں بھی بھولتا ہوں

مٹتا بھی جا رہا ہوں پورا بھی ہو رہا ہوں
میں کس کی آرزو ہوں میں کس کا مدعا ہوں

منزل کی یوں تو مجھ کو کوئی خبر نہیں ہے
دل میں کسی طرف کو کچھ سوچتا چلا ہوں

لیتی ہیں الٹی سانسیں جب شام غم فضائیں
اس دم فنا بقا کی میں نبض دیکھتا ہوں

ہوں وہ شعاع فردا جو آنکھ مل رہی ہے
وہ سرمگیں افق پر میں تھرتھرا رہا ہوں

جس سے شجر حجر میں اک روح دوڑ جائے
وہ ساز سرمدی میں غزلوں میں چھیڑتا ہوں
——*****————-
تمہیں کیوں کر بتائیں زندگی کو کیا سمجھتے ہیں
سمجھ لو سانس لینا خودکشی کرنا سمجھتے ہیں

کسی بدمست کو راز آشنا سب کا سمجھتے ہیں
نگاہ یار تجھ کو کیا بتائیں کیا سمجھتے ہیں

بس اتنے پر ہمیں سب لوگ دیوانہ سمجھتے ہیں
کہ اس دنیا کو ہم اک دوسری دنیا سمجھتے ہیں

کہاں کا وصل تنہائی نے شاید بھیس بدلا ہے
ترے دم بھر کے مل جانے کو ہم بھی کیا سمجھتے ہیں

امیدوں میں بھی ان کی ایک شان بے نیازی ہے
ہر آسانی کو جو دشوار ہو جانا سمجھتے ہیں

یہی ضد ہے تو خیر آنکھیں اٹھاتے ہیں ہم اس جانب
مگر اے دل ہم اس میں جان کا کھٹکا سمجھتے ہیں

کہیں ہوں تیرے دیوانے ٹھہر جائیں تو زنداں ہے
جدھر کو منہ اٹھا کر چل پڑے صحرا سمجھتے ہیں

جہاں کی فطرت بیگانہ میں جو کیف غم بھر دیں
وہی جینا سمجھتے ہیں وہی مرنا سمجھتے ہیں

ہمارا ذکر کیا ہم کو تو ہوش آیا محبت میں
مگر ہم قیس کا دیوانہ ہو جانا سمجھتے ہیں

نہ شوخی شوخ ہے اتنی نہ پرکار اتنی پرکاری
نہ جانے لوگ تیری سادگی کو کیا سمجھتے ہیں

بھلا دیں ایک مدت کی جفائیں اس نے یہ کہہ کر
تجھے اپنا سمجھتے تھے تجھے اپنا سمجھتے ہیں

یہ کہہ کر آبلہ پا روندتے جاتے ہیں کانٹوں کو
جسے تلووں میں کر لیں جذب اسے صحرا سمجھتے ہیں

یہ ہستی نیستی سب موج خیزی ہے محبت کی
نہ ہم قطرہ سمجھتے ہیں نہ ہم دریا سمجھتے ہیں

فراقؔ اس گردش ایام سے کب کام نکلا ہے
سحر ہونے کو بھی ہم رات کٹ جانا سمجھتے ہیں
———****—————–
جنون کارگر ہے اور میں ہوں
حیات بے خبر ہے اور میں ہوں

مٹا کر دل نگاہ اولیں سے
تقاضائے دگر ہے اور میں ہوں

کہاں میں آ گیا اے زور پرواز
وبال بال و پر ہے اور میں ہوں

نگاہ اولیں سے ہو کے برباد
تقاضائے دگر ہے اور میں ہوں

مبارک باد ایام اسیری
غم دیوار و در ہے اور میں ہوں

تری جمعیتیں ہیں اور تو ہے
حیات منتشر ہے اور میں ہوں

کوئی ہو سست پیماں بھی تو یوں ہو
یہ شام بے سحر ہے اور میں ہوں

نگاہ بے محابا تیرے صدقے
کئی ٹکڑے جگر ہے اور میں ہوں

ٹھکانا ہے کچھ اس عذر ستم کا
تری نیچی نظر ہے اور میں ہوں

فراقؔ اک ایک حسرت مٹ رہی ہے
یہ ماتم رات بھر ہے اور میں ہوں

چھلک کے کم نہ ہو ایسی کوئی شراب نہیں
نگاہ نرگس رعنا ترا جواب نہیں

زمین جاگ رہی ہے کہ انقلاب ہے کل
وہ رات ہے کوئی ذرہ بھی محو خواب نہیں

حیات درد ہوئی جا رہی ہے کیا ہوگا
اب اس نظر کی دعائیں بھی مستجاب نہیں

زمین اس کی فلک اس کا کائنات اس کی
کچھ ایسا عشق ترا خانماں خراب نہیں

ابھی کچھ اور ہو انسان کا لہو پانی
ابھی حیات کے چہرے پر آب و تاب نہیں

جہاں کے باب میں تر دامنوں کا قول یہ ہے
یہ موج مارتا دریا کوئی سراب نہیں

دکھا تو دیتی ہے بہتر حیات کے سپنے
خراب ہو کے بھی یہ زندگی خراب نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
تاریخ اردو ادب
تاریخ پاکستان
ریختہ
نوائے اردو

Leave a reply