امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی (یو ایس سی آئی آرایف) نے 28 اپریل 2020 کو اپنی سالانہ رپورٹ جاری کی۔ رپورٹ کے پاکستان چیپٹر کے مطابق کمیشن کے پاکستان میں مذہبی آزادی بارے اقدامات پر ردعمل ملاجلا تھا۔ گزشتہ سالوں کے مقابل 2019 اور مابعد حالات پر کافی تسلی بخش رائے کا اظہار کیا گیا۔ جبکہ کچھ اہم نکات ابھی توجہ طلب اور جلد حل کے متقاضی ہیں۔

اس سالانہ رپورٹ کے بعد گزشتہ منگل 16جون کو واشنگٹن میں جاری ہونے والی ایک نئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر پاکستان چاہتا ہے کہ اسے ان ممالک کی فہرست سے نکال دیا جائے جہاں مذہبی آزادی کو خطرہ لاحق ہے تو پاکستان کو امریکی حکومت کے ساتھ ایک نیا معاہدہ کرنا چاہیے جس کے تحت پاکستان میں توہین رسالت کے تمام قوانین کے خاتمے یا ان پر نظرثانی کرنے کی یقین دہانی کروائے گا۔ اور شہریت کی شناختی دستاویزات اور نادرا شناختی کارڈ میں مذہب کے اندراج کو بھی ختم کیا جائے۔

سال 2002 سے کمیشن ہر سال پاکستان کو Country of Particular Concern یا سی پی سی کی لسٹ میں شامل کرنے کی سفارش کرتا آ رہا ہے تاہم امریکی محکمہ خارجہ (سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ) نے پہلی بار پاکستان کو 2018 کو اس فہرست میں شامل کیا۔

کمیشن نے کہا ہے کہ اگرچہ اس نے اپنی اس سال کی رپورٹ میں پاکستان کوان ممالک کی فہرست میں شامل کرنے کی سفارش کی تھی جہاں مذہبی آزادی کے حوالے سے واشنگٹن کو خاص تشویش ہے، تاہم کمیشن نے دیکھا ہے کہ پاکستان نے اس دوران مذہبی اقلیتوں کے حوالےسے کئی مثبت اقدامات بھی اٹھائے ہیں۔

کمیشن نے خاص طور پر سپریم کورٹ کی جانب سے مسیحی خاتون آسیہ بی بی کی رہائی، وجیہہ الحسن کیس، سیالکوٹ میں شوالہ تیجا سنگھ مندر کو ہندوؤں اور کرتارپور راہداری کو سکھ برادری کے لیے کھولنے اور سپریم کورٹ کی حمایت یافتہ قومی کمیشن برائے اقلیت کے قیام کو سراہا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے: ‘خارجہ پالیسی سے متعلق سفارشات کی روشنی میں کمیشن یہ سفارش کرتا ہے کہ عالمی مذہبی آزادی ایکٹ (ایفرا) کے تحت پاکستان اور امریکہ ایک ایسا معاہدہ کریں جس کے تحت حکومت پاکستان کو ایسے معنی خیز اقدامات اٹھانے کو کہا جائے جس سے مذہبی اقلتیوں کی حالت بہتر ہو۔ اس دوطرفہ معاہدے کا فائدہ یہ ہوگا کہ اس سے پاکستان میں مذہبی اقلتیوں کے حالات بہتر بنانے میں مدد ملے گی اور خود پاکستان کو سی پی سی سے نکلنے کا راستہ واضح طور پرمعلوم ہو گا۔

کمیشن نے پاکستان سےسی پی سی سے نکلنے کے لیے کئی قلیل مدتی، درمیانی مدت اور طویل مدتی اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔

اس خصوصی رپورٹ میں مطالبہ کیے گئے اقدامات کو تین درجوں میں تقسیم کیا گیا ہے جن میں بنیادی طور پر دو باتیں ہی سامنے آتی ہیں۔ اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے حوالے سے قادیانی مذہب کے پیروکاروں کی بات کی گئی ہے اور وہ خود کو غیر مسلم ماننے کو تیار ہی نہیں جبکہ آئین پاکستان ان کو واضح طور پر اقلیت قرار دیتا ہے۔ جب کہ رپورٹ میں یہ اصرار بھی کیا گیا ہے کہ اگر وہ خود کو مسلم قرار دیں تو ان کو روکنا یا اس عمل کو قابل تعزیر قرار دینا غلط ہے۔

شاید اس رپورٹ کا ہی اثر ہے کہ پاکستان کی وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کے استقبالیہ پر نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر عبدالسلام (قادیانی) کی تصویر لگا دی گئی ہے۔ ایک آزاد ریاست کا شہری ہونے کے ناطے ارباب اختیار سے استدعا ہے کہ اپنی سالمیت اور خودمختاری پر سمجھوتہ نہ کیا جائے۔ اگر کمیشن کو اپنے قوانین پسند ہیں تو ہماری ریاست کے قوانین کا احترام بھی لازم ہے۔ اور بالخصوص قادیانی گروہ کے حوالے سے مسئلہ کو الجھایا نہ جائے۔ قادیانی اگر پاکستان کے آئین کی رو سے مسلمان کی تعریف میں داخل نہیں ہیں تو بلا وجہ کیوں قانون کی دھجیاں اڑاتے ہیں۔ ریاست کا دیا ہوا درجہ قبول کریں اور بغاوت نہ کریں۔

دوسرا اہم نکتہ جو اس رپورٹ میں پوری شد و مد سے اٹھایا گیا وہ قانون توہین رسالت کے حوالے سے ہے اور اس قانون کو بھی انسانی حقوق کے خلاف قرار دیا گیا ہے۔ جبکہ شخصی آزادی یا آزادی اظہار رائے کسی دوسرے کی دل آزاری کی اجازت ہرگز نہیں دیتی بلکہ یہ ایک قبیح حرکت ہے۔ سوشل میڈیا سائٹس پر بھی لوگ offensive میٹیریل کو رپورٹ کرتے ہیں اور ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہیں۔ انسانی فطرت جس چیز کو ناپسند کرتے اس کا احترام کیا جاتا ہے۔ ریاست کا قانون جس چیز کی مخالفت کرے اس کا احترام بھی سر آنکھوں پر۔ تو ایک ایسا عمل جو ریاست پاکستان میں آئینی حیثیت رکھتا ہے کیا اسے صرف اس لیے رد کر دیا جائے کہ یہ مسلمانوں کے ایمان کی علامت ہے؟ یہ دو رنگی نہ تو انسانی حقوق کی منطق سے سمجھ آتی ہے اور نہ رواداری کے کسی تقاضے کی رو سے۔

لہٰذا کمیشن کی رپورٹ کو قانون کا درجہ نہ دیا جائے بلکہ اپنی قومی و ملی امنگوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اس رپورٹ کا جائزہ لیا جائے، قابل قبول امور کو اختیار کیا جائے اور ریاستی رٹ کو چیلنج کرنے والے امور کی طرف التفات نہ کیا جائے۔

امریکی کمیشن برائے مذہبی آزادی کی رپورٹ اور پاکستان ….از… محمد نعیم شہزاد

Shares: