امریکہ کی نئی انتظامیہ نے شام بارے اپنی پالیسی جاری کردی

امریکی انتظامیہ کی تبدیلی کا مطلب پالیسی کی تبدیلی نہیں ہے اور نہ یہ مطلب ہے کہ دمشق تنہائی کے بکس سے باہر آ جائے گا … یہ اس سخت پیغام کا مفہوم تھا جو امریکا کی جانب سے تازہ ترین پابندیوں کے ذریعے شام میں موجود فریقوں کو دیا گیا۔ اس پیغام کا اعلان امریکی ایلچی جوئل روبرن نے مشرق وسطی میں متعدد ممالک کے دوروں کے دوران کیا۔

پیغام میں اس بات پر زور دیا گیا کہ اگر چند سادہ تدبیری تبدیلیاں واقع بھی ہوئیں تو نئی امریکی انتظامیہ کی آمد کے ساتھ شام میں متوقع رجحانات اور شرائط کے حوالے سے حکمت عملی میں تبدیلیاں ہر گز نہیں ہوں گی۔

اس سے قبل شام سے متعلق امریکی ٹیم نے حالیہ پابندیوں کا پیکج اس مقصد سے چنا کہ امریکی اور شامی اداروں کے بیچ مذاکرات کے دوسرے راستے کے دروازے بند کیے جائیں۔ مزید یہ کہ بات چیت کے چینلوں کھولنے کے امکانات میں رکاوٹ پیدا کی جائے اور شام کے مرکزی بینک کے خلاف اقدامات کے ذریعے دمشق پر اقتصادی دباؤ بڑھایا جائے۔

اس کے اثرات ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں اور بیرونی نجی بینکوں کا دمشق سے انخلا کا آغاز ہو چکا ہے۔

امریکی حکومت نے شامی صدر بشار الاسد کی اہلیہ اسماء الاخرس، سسر اور دو برادر نسبتی کے اور ان کی کمپنیوں کے نام پابندیوں کی فہرست میں ڈال دیے ہیں۔ یہ تمام لوگ برطانیہ کی شہریت رکھتے ہیں۔ ان کے علاوہ سیکورٹی، اقتصادی اور انتظامی میدانوں میں شامی شخصیات بھی لپیٹ میں آئی ہیں۔ ان میں صدارتی محل میں کام کرنے والی لینا کنایہ ، اس کا شوہر اور شامی پارلیمنٹ کا رکن محمد ہمام مسوتی اور شام کا مرکزی بینک شامل ہے۔ اس طرح رواں سال جون میں "سیزر ایکٹ” پر عمل درامد شروع ہونے کے بعد سے اب تک پابندیوں کی فہرست میں شامل شامی افراد اور اداروں کی تعداد 114 تک پہنچ گئی ہے.

Shares: