دادو: سندھی سرائیکی زبان کے عظیم شاعر استاد بخاری کی 32 ویں برسی کے موقع پر دادو میں محکمہ ثقافت کے تعاون سے تقریب کا انعقاد کیا گیا
صوبائی وزیر ثقافت و سیاحت سید ذوالفقار علی شاہ نے تقریب میں شرکت کی،مدد علی سندھی، تاج جویو، شیر مہرانی، ڈسٹرکٹ چیئرمین محمد شاہ، ڈی سی دادو، ایس ایس پی دادو سمیت ادیب دانشور بڑی تعداد میں شریک ہوئے، صوبائی وزیر ثقافت و سیاحت سید ذوالفقار علی شاہ نے استاد بخاری یادگار چیئر قائم کرنے کا اعلان کر دیا اور کہا کہ استاد بخاری اس خطے کے بڑے شاعر تھے، نوجوانوں کو استاد بخاری کی شاعری پڑھنے کی ضرورت ہے،استاد بخاری کی شاعری ہر دور کیلئے یادگار ہے، چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری، وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی طرف سے استاد بخاری کو خراج پیش کرتا ہوں ،محکمہ ثقافت آپ شاعروں ادیبوں کا ہے آپ آئیں ہمیں تجاویز دیں،
سید احمد شاہ المعروف استاد بخاری (پیدائش: 16 جنوری، 1930ء – وفات: 9 اکتوبر، 1992ء) پاکستان سے تعلق رکھنے والے سندھی زبان کے مشہور و معروف شاعر اور پروفیسر تھے۔ ان کی شاعری کو بہت سے گلوکاروں نے گایا ہے۔ انھیں بے پناہ عوامی مقبولیت ملی۔ ادبی خدمات پر حکومت پاکستان کی جانب سے 2009ء میں انھیں صدارتی تمغابرائے حسن کارکردگی دیا گیا۔ استاد بخاری نے سندھی شاعری میں انمٹ نقوش چھوڑے۔ انھوں نے اپنے شاعرانہ اسلوب، رومانویت اور ندرت خیال سے نئی نسل کے شعرا کی ایک بڑی تعداد کو متاثر کیا۔استاد بخاری 16 جنوری 1930ء کو گاؤں غلام چانڈیو ضلع دادو، برطانوی ہندوستان میں ایک غریب سید گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد بزرگوار کے ذریعۂ معاش کا انحصار مریدوں کے خراج پر تھا۔ استاد بخاری بڑے ہو کر پیری مریدی کا سلسلہ ختم کر لیا اور تعلیم پر دھیان دیا۔ وہ پہلے پرائمری استاد بنے پھر پروفیسر بنے، 1980ء کے بعد گاؤں چھوڑ کر دادو شہر میں سکونت اختیار کی۔ عرصہ دراز سے کینسر میں مبتلا رہے اور 9 اکتوبر 1992ء کی رات کو کراچی میں وفات پائی۔
سید احمد شاہ بخاری المعروف استاد بخاری سندھی زبان اور سرائیکی زبان کے بہت بڑے جدید قومی اور عوامی شاعر ہیں۔ استاد بخاری عوامی لب لہجے کے ایسے منفرد شاعر ہیں جو عام اور خاص میں یکساں مقبول ترین شاعر ہیں۔ ان کی سادی شاعری میں خیالات اور فکر کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر شامل ہے۔ استاد بخاری نے اپنی شاعرانہ مہارت سے سندھی زبان اور سرائیکی زبان کے متروک لفظوں کو زندہ کیا ہے اور نئے الفاظ، اصطلاحات، استعارے اور تشبیہات تخلیق کر کہ دونوں زبانوں کو مزید مالامال کیا ہے۔ سادہ انداز بیان میں شعر میں فکری گہرائی بھرنے پر اسے ملکہ حاصل تھا۔