5اکتوبر کو دنیا بھر میں اساتذہ   کو خراج تحسین  پیش کرنے   کےلئے منایا  جاتا ہے

آج بھی یاد ہے مجھے وہ سکول کا پہلا دن
نیا بستہ نئے جوتے اور نئے کپڑے اور ایک نئی جگہ جانے کی خوشی تو تھی لیکن جب اُس جگہ پہنچ کر ابو کا ہاتھ چھوڑنا پڑا تو بہت مشکل لگا رونے لگا ہر بچہ کہ طرح ابو سے لپٹ گیا۔
لیکن ایک نہایت شفیق انسان نے میری انگلی پکڑی ابو کہ ہاتھ سے میرا ہاتھ چھڑوایا اور مجھے گود میں اُٹھا کہ اندر لے گیا۔ سارا دن میرے آنسو صاف کئیے مجھے بھلایا اور رخصت کرتے وقت ٹافی دی اور کہا اگر روز آؤں گا تو روز ٹافی ملے گی۔
اب جب میں یہ سب سوچتا ہوں تو خود پہ بہت ہنسی آتی ہے لیکن دوسری طرف آنکھ آبدیدہ بھی ہوتی ہے۔
پھر جب ماضی کے خدوخال کا نقشہ دماغ میں کھینچتا ہوں تو بہت دل کرتا ہے میں لوٹ جاؤں وہیں جہاں سے میں سب سبق سیکھیں۔جہاں میں نے دنیا کے ساتھ قدم ملا کہ چلنا سیکھا۔
جہاں میں نے پنسل پکڑنا اور پھر لکھنا سیکھا۔میں نے الف سے انار سیکھا۔
تختی پہ لکھا۔
بہت سی نظمیں پڑھیں۔
سب سے بڑی بات مجھے میرے اُساتذہ کی شفقت رُلا دیتی ہے۔
بابا کا ہاتھ جب چھوڑا تو محسوس نہ ہوا کہ میں نے بابا کا ہاتھ چھوڑا ۔محسوس ہوتا بھی کیسے ایک باپ کا ہاتھ چھوڑ کہ دوسرے کا ہاتھ تھام لیا تھا ۔
وہ خوبصورت وقت بہت یاد آتا ہے کیونکہ وہ بیت گیا ہے۔کیونکہ اب اُس کے لوٹنے کا کوئی جواز نہیں ۔
اُستاد کا رتبہ بعد میں جانا میں نے ۔
اُستاد صاحب کہا کرتے تھے
وکیل چاہتا ہے اسکا موکل جیت جائے
ڈاکٹر چاہتا ہے مریض ٹھیک ہو جائے
انجینئر چاہتا ہے اُسکی مشینری کامیاب ہو
افواج چاہتی ہے ملک محفوظ ہو
لیکن واحد اُستاد ہے جو یہ چاہتا کہ یہ سب کہ سب عروج کی بلندیوں کو چھو جائیں
اُن کی یہ بات اب سمجھ میں آتی ہے کہ روحانی والدین کی خوشی صرف اور صرف اپنے بچوں کی کامیابی میں ہے
یہ وہ خوبصورتی ہے جس کے بغیر چمن کا رنگ پھیکا ہے
یہ پھول کی خوشبو ہیں
اگر اقوام میں اُستاد قابل نہ ہوں تو قومیں پستی کا شکار ہوتی ہیں اور اگر قومیں استاد کی قدر نہ کریں تو بھی زوال اُن کا مقدر ٹھہرتا ہے ۔
میں نے دیکھا ہے وقت ہو بدلتے میرے اساتذہ کی دعاؤؤں سے
یقین جانے ایک سچا روحانی باپ یا روحانی ماں آپ کے حقیقی ماں باپ سے زیادہ آپکی قدر کرتے ہیں-آپکو زندگی کی ہر راہ میں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں ۔
آج بھی جب کبھی میں اپنے روحانی ماں باپ کو دیکھو یا وہ مجھے پہچان جائیں یقین جانے اک عجب خوشی ہوتی ہے ایک عجب ہی احساس ہوتے وہ تمام تر ماضی روح پزیر ہو جاتا ہے بس پھر دل کرتا ہے لوٹ جائیں وہیں جہاں زندگی بہت خوشگوار تھی جہاں محبت کرنے والے بے وجہ بے شمار تھے

استاد معاشرے میں مستریوں کا سا کردار ادا کرتے ہیں۔۔
جو انسانوں میں شخصیات، اقدار اور اخلاق کے محلات کی تعمیر کرتے ہیں۔۔
یہ لوگ علم و ہنر کی اینٹیں آپ کی شخصیت میں اس ترتیب سے لگاتے ہیں کہ ان کی آرائش و زیبائش سے معاشرہ ایک خوبصورت شہر میں اونچی نیچی شیش

محلوں جیسی عمارات اور چمکتے دمکتے برقی قمقموں کی مانند

میرے کردار کو سنوارنے اور معاشرے میں سر اٹھا کر چلنے کے قابل بنانے والے میری زندگی کی پہلی استاد میری ماں سے لے کر میرے قاعدے کے الف سے قرآن کے والناس تک درس و تدریس کے اسباق پرھانے والے، اور الف انار سے تعلیمی ڈگریوں تک زینہ بہ زینہ پہنچانے والے، مجھے لکھنے کا ہنر سکھانے والے سوشل میڈیا کے اساتذہ اور میرے وہ فالوور جنہیں خود تو شاید لکھنا لکھانا نہیں اتا مگر ان کے ٹوٹے پھوٹے کمینٹس سے مجھے پورا ایک موضوع ضرور مل جاتا ہے۔۔ زندگی کے تاریکیوں میں علم کی یہ شمع جلانے والے ان تمام اساتذہ کو آج کا دن بہت بہت مبارک ہو۔۔۔ا

اللہ آپ سب کو جزائے خیر عطا فرمائے اور معاشرے کی تعمیر و ترقی میں مزید کردار ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔۔

‎@__GHulamMurtaza

Shares: