عزیر بلوچ جے آئی ٹی رپورٹ، چیف جسٹس سے از خود نوٹس کا مطالبہ،علی زیدی جاری رپورٹ سے مختلف رپورٹ سامنے لے آئے
باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق وفاقی وزیر برائے بحری امور علی زیدی اور وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز نے پریس کانفرنس کی ہے
وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز کا کہنا تھا کہ ملک کوآگے لے جانے کے لیےحکومت میں آئےہیں،ہمارا عزم ملک کی بہتری اور حقائق سے روشناس کرانا ہے پاکستان کوان لوگوں سے نجات دلائیں گےجوسیاست مفادات کے لیے کرتےہیں،
وفاقی وزیر برائے بحری امور علی زیدی کا کہنا تھا کہ دنیا میں رائٹ اور لیفٹ کی سیاست ہوتی ہے جبکہ یہاں رائٹ اور رانگ کی سیاست ہو رہی ہے۔ میں نے جے آئی ٹی رپورٹس منظر عام پر لانے کےلئے طویل جدوجہد کی ہے، اب سندھ حکومت نے اﷲ اﷲ کرکے یہ رپورٹس پبلک کی ہیں۔ ملزم جے آئی ٹی رپورٹ میں 158 قتل کا خود اعتراف کر چکا ہے۔
علی زیدی کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت نے جو جے آئی ٹی رپورٹ ریلیز کی ہے وہ نامکمل ہے، جے آئی ٹی میں جو انکشاف کئے گئے تھے اس میں یہ نہیں بتایا گیا کہ ملزم نے کس کے کہنے پر یہ سب کیا اور اس کا کسے فائدہ ہوا۔ ہم بڑی لمبی جدو جہد کے بعد اقتدار میں آئے، عمران خان کی مہربانی سے وزیر بھی بن گئے ،ہم ملک بدلنے آئے ہیں،ملک کو صحیح راہ پر لگانے کےلئے ضروری ہے کہ اﷲ کا نظام جو سزا و جزا پر مشتمل ہے اس پر عمل کیا جائے۔
علی زیدی نے کہا کہ عزیر جان بلوچ نے اپنے بیان حلفی میں یہ اقرار کیا کہ وہ سینیٹر یوسف بلوچ کے کہنے پر وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ اور فریال تالپور سے ملا اور اپنے خلاف ہیڈ منی ختم کرانے کا کہا جو فریال تالپور اور آصف زرداری کے کہنے پر ختم کر دی گئی۔ جے آئی ٹی رپورٹ کے آخری صفحہ پر بیان حلفی میں عزیر بلوچ نے کہا کہ مجھے خدشہ ہے ان انکشافات کے بعد مجھے اور میرے گھر والوں کو جان سے مار دیا جائے گا جس کےلئے میں درخواست کرتا ہوں کہ مکمل حفاظت کی جائے کیونکہ مجھے آصف زرداری و دیگر سیاسی لوگ بشمول جن کا ذکر بیان میں ہے ان سے انتقامی کارروائی کا خطر ہ ہے۔
علی زیدی کا کہنا تھا کہ بلدیہ فیکٹری کی جے آئی ٹی بھی بہت مشکل سے ریلیز کی گئی، جے آئی ٹی میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح اداروں کو تباہ کیا گیا۔ سندھ پولیس کے ایس پی ڈاکٹر رضوان احمد نے رپورٹ نکالی تو ان کا ٹرانسفر شکار پور کر دیا گیا۔ انہوں نے وہاں دوسری رپورٹ نکال دی ، ڈاکٹر رضوان احمد نے چنیسر گوٹھ محمود آباد جو کہ میرا حلقہ انتخاب ہے، کے بارے میں اپنی رپورٹ میں کہا کہ یہاں فرحان غنی نام کا شخص منشیاب فروشوں کی مدد کرتا ہے اور وہ سندھ کے صوبائی وزیر سعید غنی کے بھائی ہیں۔ اس رپورٹ کے بعد ڈاکٹر رضوان احمد کو فارغ کر دیا گیا، ٹرانسفر کر دیا گیا۔
علی زیدی نے مزید کہا کہ جے آئی ٹی رپورٹس کےلئے میں نے 2017ءمیں چیف سیکرٹری سندھ کو خط لکھا لیکن جواب ہی نہیں دیا گیا، اس کے بعد دوبارہ خط لکھا لیکن جواب نہیں ملا ، اس کے بعد میں نے سندھ ہائی کورٹ میں پٹیشن فائل کر دی،اکتوبر 2017ءسے یہ کیس چلتا رہا، آخرکار 28 جنوری 2020ءمیں سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے میرے حق میں فیصلہ آ گیا تاہم سندھ حکومت نے میرے بارے میں اعتراض کیا کہ اس معاملے میں میرا تو کوئی بند ہ نہیں مرا تو میں یہ رپورٹ کیوں مانگ رہا ہوں۔ میرے شہر کی عوام نے عمران خان کے نام پر مجھے ووٹ دیا تو میں نے سوچا کہ بات اب ایسے ختم نہیں ہوگی میں نے اسمبلی میں اس پر بات کی ، جو لوگ دوسری طرف بیٹھ کر بجٹ پر تقریریں کررہے ہیں ان کے بارے میں تو جے آئی ٹی میں لکھا ہے وہ لوگوں کو قتل کرارہے تھے ،
علی زیدی کا مزید کہنا تھا کہ عزیر بلوچ کی جے آئی ٹی میں چھ لوگ تھے جبکہ جے آئی ٹی رپورٹ میں چار کے دستخط ہے سندھ حکومت کے ماتحت جو لوگ اس ٹیم کا حصہ تھے ان لوگوں نے دستخط نہیں کئے۔ جے آئی ٹی رپورٹ میں بڑے انکشافات تھے، وفاقی اداروں اور سندھ کی صوبائی حکومت کے جو آفیسران تحقیقاتی ٹیم میں شامل تھے ان کے درمیان ڈیڈ لاک ہوگیا تھا۔ جے آئی ٹی جس پر چار لوگوں کے دستخط ہیں اس میں دوستوں کے نام لکھے ہیں جبکہ دوسری رپورٹ میں دوستوں کے نام نہیں ہیں۔
علی زیدی کا مزید کہنا تھا کہ میرے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ تحریک استحقاق لائی جائے گی اور 62،63کے حوالے سے کورٹ میں جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ جو مرضی کریں ، مجھے کسی بات کی فکر نہیں۔ آج کابینہ اجلاس سے قبل میں نے وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کی ہے اور انہوں نے مجھے مکمل حمایت کا یقین دلایا ہے ، میں بطور وفاقی وزیر چیف جسٹس آف پاکستان سے اپیل کرتا ہوں کہ 184.3کے تحت وہ اس معاملے کا سوموٹو نوٹس لیں، سپریم کورٹ مجھ سے بھی جے آئی ٹی رپورٹ مانگے اور جے آئی ٹی کو بھی بلائے، میں اپنے طور پر سپریم کورٹ میں پٹیشن جمع کرادوں گا۔جے آئی ٹی میں جن لوگوں کا نام ہے وہ قتل کراتے ہیں، قبضوں، بھتہ خوری، جواءکے اڈوں، اغواءبرائے تاوان میں ملوث ہیں وہ عوامی ٹیکس کے پیسوں پر پارلیمنٹ میں بیٹھے ہیں، میری چیف جسٹس صاحب سے گزارش ہے کہ وہ نوٹس لیں۔
علی زیدی نے چیف جسٹس سے اپیل کی کہ کراچی میں جوقتل و غارت ہوئی اس پر نوٹس لیں،سب لوگوں کو بلائیں، جے آئی ٹی منگوائیں کہ جے آئی ٹی سے نام کیسے غائب ہوئے۔ اس معاملہ کے جو بھی نتائج ہوں گے وہ اس کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں۔