وادی کشمیر اور آتشِ نمرود
سفیر اقبال
سوچا تھا اس بار کچھ نہیں لکھوں گا…..
تا کہ ہاتھ باندھنے، روڑے اٹکانے اور حوصلہ توڑنے والوں کو بھی علم ہو کہ ذہنی شکست کیا ہوتی
لیکن پھر خیال آیا جب لڑنے والے شکست قبول نہیں کر رہے تو میں لکھنے سے کیوں ہاتھ پیچھے کروں…اور جنہیں گھر سے باہر نکل کر افق کا منظر دیکھنے کی ہمت و جرات تک نہیں کیوں ان چند لوگوں کی وجہ سے ذہنی شکست قبول کروں.
تو عرض یہ ہے کہ دشمن یہ سمجھتا ہے کہ ہم اس طرح کے مناظر اور اس طرح کے معرکے دکھا کر ڈرا دھمکا کر انہیں اپنے ساتھ ملا لیں گے. یہی خوش فہمی لاک ڈاون شروع کرتے وقت بھی تھی کہ جب تک اقوام متحدہ یا پاکستان کی طرف سے شدید ری ایکشن نہیں آتا تب تک ہم نیٹ سروس بند کر کے دنیا سے ان کا رابطہ ختم کروا لیں گے اور لاک ڈاون کا بہانہ بنا کر اندر کھاتے انہیں خوراک و آسائش مہیا کرتے رہیں گے اور بالآخر انہیں اپنا گرویدا بنا لیں گے. اور بعد میں دنیا کو دکھا دیں گے کہ ہم ایک ہیں اور بھائی بھائی ہیں. اور اب آزادی کی کوئی ضرورت نہیں.
لیکن ان گائے کا پیشاب پینے والوں کی قسمت میں جنت اور جنت نظیر کی دودھ کی نہریں کبھی نہیں تھیں. اتنا عرصہ گزر گیا نیٹ سروس بحال ہو گئی لیکن اس بستی میں آج تک کوئی ترنگا لہراتا نظر نہیں آیا… جہاں سبز ہلالی پرچم لہراتا نظر آتا تھا آج بھی لہرا رہا ہے مگر جبری طور پر اپنا بنا لینے والی قاتل و بے رحم حکومت وہاں پر ترنگا نہیں لہرا سکی. وہ مظلوم لیکن غیرت مند لوگ اپنا غم اپنی خوشیاں، اپنے روزے اور اپنی عیدیں سبز ہلالی پرچم کے ساتھ منانا پسند کرتے ہیں… اب بھی! اور جابر و قاتل حکومت یہ سب دیکھنے کے باوجود بھی انہیں روکنے میں ناکام ہے.
وہ مزاحمت کاروں کو بھون رہے ہیں اور بچوں بزرگوں کو دھمکا رہے ہیں. ہو سکتا ہے لالچ بھی دے رہے ہوں اور عین ممکن ہے کہ اس لالچ کی وجہ سے کچھ نہ کچھ لوگ ہتھیار ڈال کر ان کی ہاں میں ہاں ملا رہے ہوں اور تحریک کے خلاف سرگرم ہو چکے ہوں اور غداروں کی صف میں کھڑے ہو گئے ہوں لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ تحریک ختم ہو رہی ہے.
مائیں اپنے بیٹے گنوانے کے باوجود صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دے رہیں. اندازہ کریں پاکستان کے اندر پاکستان کا کھانے والے ہلکی سی اونچ نیچ کی وجہ سے پاکستانی پرچم جلانے پر آ جاتے ہیں، مردہ باد کے نعرے لگانا شروع کر دیتے ہیں اور سوشل میڈیا اور اردگرد کی ساری فضا میں ڈھکے چھپے الفاظ میں گالیوں کے پھول بکھیر دیتے ہیں لیکن جو نہ تو پاکستان کا کھاتے ہیں، نہ ہی کسی معاہدے کے پابند ہیں وہ اس قدر درد سہنے کے باوجود اس درد کو پاکستان کے ساتھ نہیں جوڑتے… پاکستانی پرچم جلا کر ہندو ریاست کے ساتھ وفاداری ثابت نہیں کرتے… پاکستان کے خلاف طنزیہ پوسٹیں اور طنزیہ کمنٹس کر کے مشہور ہونے کی کوشش نہیں کرتے.
اللہ تحریک آزادی کے لیے کوشش کرنے والوں کو اور ان کی کوششوں کو جانتا ہے اور جو لوگ اس جدوجہد میں دانستہ و نادانستہ طریقے سے رکاوٹ ڈال رہے ہیں اللہ انہیں اور ان کی کوششوں کو بھی خوب جانتا ہے. بس یہی دعا ہے کہ اللہ سب کو ان کی کوششوں کے مطابق اجر عطا فرمائے.
کا شمیر کی آزادی کب ہے… کتنی قریب ہے اس سوال کا جواب جاننے کی پاداش میں کتنی آنکھیں نکال دی گئیں کتنے جسم بھون دئیے گئے لیکن مائیں آج بھی دودھ پیتے بچوں کو آزادی کا ہی سبق پڑھاتی ہیں. زمینی حقائق جو بھی ہوں لیکن ایمان یہی ہے کہ جب حالات ایسے ہوں کہ اونٹ کو چرانے والا عبدالمطلب بیت اللہ پر چڑھائی کرنے والے ہاتھیوں کو نہ روک سکے تو اللہ تعالیٰ ابابیل بھیجتا ہے اور جب اللہ کا رسول رو رو کر اللہ سے منت اور دعا کرے کہ اگر یہ پیدل اور غیر مسلح تین سو تیرہ افراد دنیا سے مٹ گئے تو تیرا نام لینے والا دنیا میں کوئی نہیں بچے گا تو تب اللہ تعالیٰ تلواروں نیزوں والے مشرکین کے خلاف مسلمانوں کی مدد کے لیے نظر نہ آنے والے فرشتے بھیجتا ہے.
تحریر : سفیر اقبال
#رنگِ_سفیر








