ویکسین کیوں نہ لگوائی جاۓ تحریر : ثروت نجمی

0
29

کو ویڈ ۱۹ نے دنیا تو بدل ہی دی، ہمیشہ کی طرح ہمیں ایک نیا عالمی سازش کا مرکز بھی بنا دیا ہے۔

دنیا بھر کے لوگ اس فکر میں ہیں کہ کس طرح سے اپنے آپ کو، اپنے اہل و عیال، پڑوسی محلہ دار، رشتہ دار، دوست احباب اور ہم وطنوں کو اس جان لیوا وائرس سے بچائیں۔
پچھلے ڈیڑھ سال سے دنیا بھر کی حکومتیں مختلف قسم کے لاک ڈاؤن کر کے ، حفاظتی طریقہ کار اور واءرس سے بچاؤ کے پیغامات کو ہر خاص و عام تک پہہچارہی ہیں تاکہ اس وائرس کی تباہ کاریوں کو کسی نہ کسی طریقے سے قابو میں لایا جا سکے۔ ان تمام تر حفاظتی اقدامات کے باوجود لاکھوں لوگ اپنی جان گنوا بیٹھے ہیں، کڑوڑوں لوگ اس وائرس کی وجہ سے جان لیوا بیماری میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ اس موزی وائرس کے انسانی جسم پڑ پڑنے والے دور رس مضر صحت اثرات کے بارے میں ابھی مکمل معلومات ہی نہیں ہیں۔

معاشرتی طور پر اس وائرس کی وجہ سے میل ملاپ، درس و تدریس، غمی و خوشی، دکھ سکھ ، آنا جانا، ملنا ملانا ، غرض یہ کی زندگی کا ہر ایک پہلو اس کی زد میں آکر پاش پاش ہو گیا ہے۔ جو معاشرتی ضابطے دہایوں، صدیوں اور نسل در نسل ہماری زندگی کا حصہ بن چکے تھے، اب اچانک ہی خطرناک اور جان لیوا بن گئے ہیں۔
کسی بھی جگہ ، کسی بھی وقت، کسی سے بھی ملاقات کرنے کی آزادی فلحال ختم ہوگئی ہے۔ بچے اپنے ماں باپ سے ملنے سے قاصر ہو گۓ، میتیں بغیر عزیز و اقارب کے سپرد خاک کر دی گئیں، بیمار جانیں اپنی اقرباء کی عیادت سے محروم ہو گئیں، دفاتر، اسکول، اعلیُ تعلیمی ادارے، جیمخانہ وغیرہ بند ہو گۓ ۔ قصہ مختصر ، زندگی جو ہم جانتے تھے وہ مکمل طور پر بدل گئی ہے۔

معاشی طور پر کروڑوں لوگوں کے کاروبار تباہ و برباد ہو گۓ، نوکریاں ختم ہو گئیں، غریب ممالک میں مزید غربت پھیل گئی ہے، امیر ممالک بھی قرضوں کے بھوجھ میں دبیں ہیں۔ کساد بازاری کا ایک بڑھتا ہوا طوفان ہے جو دنیا بھر کی معاشیات کو اپنی ظالمانہ گرفت میں لے رہا ہے۔ غریب مزید غریب ہوا جارہا ہے اور اسے امید کی کرن شازونازر ہی نظر آ رہی ہے۔

یہ تو پھر بھی کافروں کی ایجادات بشمول انٹرنیٹ ، موبائل فون، اور کمپیوٹرز کی معجزہ کاری ہے کہ زندگی کا نظام جاری ہے اور ہم اپنی روز مرہ زندگی کی گذر بسر کر رہے ہیں۔ یہ وہی ایجادات جنہیں ہم مختلف حیلے بہانوں سے رد کرتے ہیں یا ان میں سازشوں کا عنصر تلاش کرتے رہتے ہیں۔ اور اگر کچھ نہیں بات سوجھتی تو ان ایجادات کے استعمال کو فحاشی پھیلانے کازریعہ اور اسلامی اقدار کے منافی قرار دیتے ہیں۔

اس کسمپرسی اور مایوسی میں امید کی واحد کرن وہ علاج ہے جوُ کہ جہنمی کافروں نے اپنی دنیاوی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوۓ اور دن رات کی انتھک کا وشوں سے ایک ویکسین کی شکل میں ایجاد کیا۔ یہ ویکسین دنیا میں امید کی واحد کرن ہے جس کے استعمال سے ہم اپنی معمول کی زندگی گزارنے کا خواب دوبارہ دیکھنے لگے ہیں۔
جن معاشروں میں اس ویکسین کا استعمال وافر تعداد میں ہو رہا ہے وہاں زندگی کسی نہ کسی معنوں میں واپس آرہی ہے۔ روز مرہ کے معمولات میں توازن آرہا ہے۔

لیکن ہمارے معاشرے کی سوچ میں جو یہود و ہنود کی سازشوں کا جال بن دیا گیا ہے وہ اس ویکسین کو بھی اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔ ہمیں مختلف طریقوں، تاویلوں، شرعی حوالہ جات اور فتاؤں کی مدد سے یہ باور کرایا جارہا ہے کہ یہ ویکسین ایک بینالاقوامی سازش ہے جس کے پیچھے کافروں (چین کی استثنی) کا ہاتھ ہے۔ کہ ہم جو دنیا جہان کے سب سے معزز، پاکیزہ، نیک سیرت، غریب پرور، عبادتگار، ہمدرد، اور ترقی یافتہ لوگ ہیں، یہ ویکسین ہماری ان تمام خوبیوں اور صفات کے خلاف ایک کافرانہ ہتھیار ہے۔ ہمارا مقتدر دینی طبقہ تو مزید آگے بڑھ کر یہ بیان فرمارہا ہے یہ ویکسین مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو روکنے کے لۓ ایک عالمی کافرانہ سازش ہے۔ ان کے مطابق موجودہ اربوں مسلمانوں نے مل کر دنیا میں جو ایجادات، خوشحالی، امن، بھائ چارہ اور مثالی اسلامی معاشرے قائم کیا ہے ، ان کی معازاللہ روک تھام ہو جاۓ گی۔

ایک ایسی سازش جس کا تانہ بانہ ہر اس کافر ملک سے ملتا ہے، جس کی امیگریشن لینے کے لۓ مسلمان اپنا جان و مال قربان کرنے کے لۓ ہمہ وقت تیار ہیں۔ دنیا بھر کا جھوٹ اور فراڈ کر کے ہم مسلمان ان ہی کافر ممالک کی امیگریشین لیتے ہیں ، جو ہماری تعداد کو گھٹانے کے لۓ یہ ویکسین لے کر آئے ہیں۔ تو جناب اب یہ بات عیاں ہو رہی ہے کہ ان مقتدرہ حضرات کی نظر میں اسلام کا مفاد اتنا عزیز ہے کہ وہ اس کے لۓ ویکسین نہ لگا کر اپنی جان دے دیں گے ۔ چنانچہ اگر آپ کو بھی اسلام سے اتنی ہی محبت ہے تو پھر ان پہنچی ہوئی ہستیوں کی تقلید میں آپ بھی ویکسین نہ لگوا کر شہید ہو سکتے ہیں اور اگر آپ ایک مسلمان مرد ہیں تو فوراُ ہی جنت پہنچ کر بہتر حوروں، انگنت غلامان، اور اپنی دنیاوی بیگم کے ساتھ عیش و آرام کی ابدی زندگی گزار سکتے ہیں۔ وما علینہ اللالبلاغ۔

Leave a reply