ہمارے معاشرے میں سیاست کا موسم جب آتا ہے تو منظر ہی بدل جاتا ہے گلیوں میں رونقیں بڑھ جاتی ہیں وعدوں کی بارش ہونے لگتی ہے اور عوام کے دروازے اس طرح بجتے ہیں جیسے برسوں کی رفاقت ہو امیدوار جھک کر سلام کرتے ہیں چائے پیتے ہیں تصویریں بنواتے ہیں اور دلوں میں امیدیں جگاتے ہیں کہ اب شاید تبدیلی آئے گی اب شاید عام آدمی کی عزت بحال ہوگی مگر الیکشن جیتنے کے بعد جیسے منظر پہاڑی راستے کی طرح اچانک موڑ بدل لیتا ہے وہی لوگ جو کل تک عوام کے قدموں میں بیٹھتے تھے آج ہجوم سے دور پروٹوکول کے حصار میں نظر آتے ہیں فون کا جواب تک ملنا مشکل ہو جاتا ہے اور عوام کی آوازیں اقتدار کے بند دروازوں میں گم ہو جاتی ہیں دکھ کی بات یہ ہے کہ عام آدمی کے دکھ سکھ میں شریک ہونا بھی ان کے لیے غیر ضروری مشقت سمجھا جاتا ہے غریب کے گھر فوتگی ہو جائے تو وہاں ان کے قدم نہیں پہنچتے عام آدمی کا غم شاید ان کے مصروف شیڈول میں جگہ نہیں پاتا خوشیوں میں بھی ان کی آمد صرف ان گھروں تک محدود رہتی ہے جہاں طاقت پیسہ اور اثر و رسوخ ہو جیسے دعوت اور تعزیت بھی اب طبقاتی نظام کے تابع ہو گئی ہو اور یہاں ایک سوال شدت سے جنم لیتا ہے آخر یہ کن کے نمائندے ہیں کیا وہ چند خاندانوں کے ووٹوں سے اقتدار میں آئے کیا وہ صرف ان ہاتھوں کے مرہون منت ہیں جن کے ڈرائنگ رومز میں بیٹھ کر سیاست کی بریفنگ لی جاتی ہے اگر نہیں تو کیا انہیں احساس ہے کہ تخت تک پہنچانے والے ہاتھ ان خاص محفلوں میں نہیں بلکہ عام گھروں چھوٹے ووٹروں کچی گلیوں اور سادہ لوگوں کی انگلیوں میں ہوتے ہیں اقتدار کا راستہ عوام کے دلوں اور ووٹوں سے ہو کر جاتا ہے نہ کہ دوچار خوشامدی مشیروں اور چند بااثر خاندانوں کی چوکھٹوں سے پھر کیوں یہ بھول جاتے ہیں کہ اصل طاقت وہی عام آدمی ہے جسے وہ بعد میں ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرکے فراموش کر دیتے ہیں –

اصل مسئلہ سیاست دانوں کا نہیں ہماری خاموشی کا ہے ہم ہر بار جذبات میں بہہ جاتے ہیں اور اگلے الیکشن تک اپنی ناراضگی کو سلا دیتے ہیں جب تک عوام سوال نہیں اٹھائیں گے جواب بھی نہیں ملے گا جب تک ہم یاد نہیں دلائیں گے کہ ووٹ عبادت بھی ہے اور ذمہ داری بھی تب تک ہمارے دروازے صرف انتخابی موسم میں ہی بجتے رہیں گے وقت ہے سوچنے کا ووٹ کے روز ہماری دہلیز پر جھکنے والے کل بھی اسی طرح جھکتے رہیں یہی اصل جمہوریت ہے ورنہ پھر یہی ہوگا وعدوں کے موسم اور پھر طویل فاصلوں کی سرد ہوا-

Shares: