جب سے کرونا وائرس کی صورتحال پیش آئی ہے دو رویے ہیں جو سامنے آئے ہیں۔ مذہبی لوگ اس کو خدا کی آزمائش قرار دے کر لوگوں کو اللہ کی طرف رجوع کرنے کے لیے مائل کر رہے ہیں۔ اور جو غیر مذہبی لوگ ہیں وہ اس کا سائنسی طور پر علاج تلاش کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ اس طرح کی صورتحال میں لوگوں کو کیا کرنا چاہیے، اللہ کی طرف رجوع کرنے کے لیے مائل کرنا چاہیے یا پھر اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے کوئی علاج ڈھونڈنا چاہیے؟
میرے حساب سے بندہ مومن کو ان دونوں طریقوں پر عمل کرنا چاہیے۔ مجھ پر انفرادی طور پر جب کوئی تکلیف آتی ہے تو میرے مذہب نے مجھے یہ تعلیم دی ہے کہ مجھے اس کی تدبیر تلاش کرنی چاہیے۔ آپ یہ دیکھتے ہیں کہ انسان کو کوئی تکلیف یا بیماری ہو تو دور دراز دیہات کے لوگ بھی مریض کو چارپائی پر اُٹھا کر ہسپتال تلاش کرتے پھر رہے ہوتے ہیں۔
مسلمانوں کو بھی اس طرح کی صورتحال میں اس بیماری کا علاج تلاش کرنا چاہیے۔ جو چیزیں دریافت ہو جائیں ان کو تدبیر کے طور پر اختیار کرنا چاہیے۔ یہ چیز خود ہمارے مذہب کی سیکھائی ہوئی ہے۔ ہم کسی ایسے مذہب کے ماننے والے نہیں ہیں جو کوئی جادو منتر کی چیزیں سکھاتا ہو۔ مجھے نہیں معلوم کے جو لوگ اپنا نقطہ نظر مذہب پر تنقید میں بیان کرتے ہیں انہوں نے یہ چیز کہاں سے سنی اور پڑھی ہے۔قرآن مجید اور حضرت محمد ﷺ کی تعلیمات اس سب سے خالی ہیں۔ یعنی ہم تو بالکل سائنسی ذہن رکھنے والے لوگ ہیں۔
جب بھی کوئی تکلیف آئے گی، مصیبت آئے گی یا دنیا میں کوئی معاملہ ہو گا تو سب سے پہلے جو ہمیں تعلیم دی گئی ہے وہ یہ ہے کہ ہم اپنی عقل استعمال کریں گے اور تدبیر کریں گے۔ یعنی یہ ہمارا مذہب ہے جس نے ہمیں تعلیم دی۔ آپ سورۃ یوسف دیکھیں، وہاں یہ ہدایت کی گئی کہ ایک قحط آنے والا ہے۔ اس کے لیے ایک خواب دکھایا گیا کہ یہ اہتمام کرنا ہے۔ خدا کے پیغمبر نے یہ تدبیر دی اور غلہ محفوظ کیا گیا۔
اس میں کوئی دعا نہیں کی گئی یا کوئی جنتر منتر نہیں کیا گیا بلکہ تدابیر بتائی گئی ہیں۔ یہ تدابیر ہماری مذہبی تعلیم اور مذہبی شعور کا حصہ ہیں۔ ہمیں کہیں یہ تعلیم نہیں دی گئی کہ ایک طرف اگر لوگ علاج کر رہے ہیں تو دوسری طرف اطمینان کے ساتھ بیٹھ کے کوئی منتر پڑھ لیا جائے۔
دوسری بات، یہ جو بیماری یا تکلیف آتی ہےاس کے بھی دو پہلو ہیں۔ یعنی ایک اس کا سائنسی پہلو ہے کہ یہ کن اسباب سے آئی ہے،ان اسباب کو پیدا کرنے میں میرا اورآپ کا کیا دخل ہے، غلطی کہاں ہوئی ہے۔ تو اس میں ہمارا رویہ یہی ہونا چاہیے کہ ہم اس غلطی کو تلاش کریں اور اس کو ٹھیک کریں۔
لیکن دوسری جانب ہمیں یہ تعلیم بھی دی گئی ہے کہ یہ جو کچھ بھی ہوتا ہے یہ اس مالک کی طرف سے ہوتا ہے، اُس کے علم سے ہوتا ہے۔ اور ہم نے اس کی بارگاہ میں حاضر بھی ہونا ہے۔ اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ یہ وہ کیوں ہونے دیتا ہے۔ یعنی وہ ہماری غلطیوں کے باوجود اس پر قدرت رکھتا ہے کہ اس کو روک دے، وہ اس کائنات کا خالق ہے۔ عذاب کا دروازہ تو آپﷺ کے بعد بند ہو گیا تھا، لیکن اس نے اپنی کتاب میں ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ وہ یہ سب تنبہ کے لیے کرتا ہے۔ یہ ہمیں ہمارے گناہوں کی طرف متوجہ کرتی ہے،خدا کی یاد دہانی کرواتی ہے۔ اس وقت بھی اگر آپ دیکھیں تو اس وباء (کرونا وائرس) نے ہم مسلمانوں کو خدا یاد کروایا ہے۔بلکہ پوری دنیا کو یاد کروا دیا ہے۔لوگ اب دعائیں کرنے لگے ہیں، تو یہ وہ تنبہ کا پہلو ہے۔ اللہ نے یہ دنیا بنائی ہی اس طریقے سے ہے کہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ ایک تنبہ ہے اور ہمیں اطمینان سے بیٹھ جانا چاہیے۔ ہمیں وہ سب کام کرنے ہیں جو اس سے نجات حاصل کرنے کے لیے ضروری ہیں۔ اگر ہم نہیں کریں گے تو پھر اللہ کے قانون کے مطابق یہ تنبہ بہت بڑی سزا بن جائے گی۔ دنیا میں جو ہمیں علم دیا گیا ہے، عقل دی گئی ہے اس کا استعمال نہ کرنا بھی بُرے نتائج کاذریعہ بن جاتا ہے۔
ہمارے دین کی یہی تعلیم ہے، اس لیے اس صورتحال میں ہمیں تدبیر کرنی چاہیے اس کے بعد اپنی تمام تدبیروں کی کامیابی کے لیے اپنے رب سے دعا کرنی چاہیے۔ اور یہی ایک مومن انسان کا رویہ ہونا چاہیے۔
twitter.com/iamAsadLal
@iamAsadLal

Shares: