والدین کا مقام اور احترام قرآن و حدیث کی روشنی میں ازقلم:- محمد عبداللہ گِل

5 سال قبل
تحریر کَردَہ

والدین کا مقام اور احترام
ازقلم:-
محمد عبداللہ گِل
اللہ تعالیٰ نے کائنات میں افضل اور اشرف مخلوق انسان کو بنایا ہے۔ والدین درحقیقت انسان کے دنیا میں آنے کا ذریعہ ہوتے ہیں،ہمارا وجود والدین کی وجہ سے ہوتا ہے ، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے بھی والدین کے ساتھ حُسن سلوک کا حکم دیا اور ان کے حقوق کی ادائیگی کی تلقین کی ہے۔محبت کا جذبہ فطری طور پر بدرجہ اتم والدین کو عطا کیا گیا ہے۔اولاد کے لئے والدین دنیا کی سب سے بڑی نعمت ہیں،والدین کی جس قدر عزت و توقیر کی جائے گی اسی قدر اولاد سعادت سے سرفراز ہوگی شریعت میں والدین کے ساتھ حُسن سلوک کا حکم دیا گیا ہے۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔

وَ قَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعۡبُدُوۡۤا اِلَّاۤ اِیَّاہُ وَ بِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًا ؕ اِمَّا یَبۡلُغَنَّ عِنۡدَکَ الۡکِبَرَ اَحَدُہُمَاۤ اَوۡ کِلٰہُمَا فَلَا تَقُلۡ لَّہُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنۡہَرۡہُمَا وَ قُلۡ لَّہُمَا قَوۡلًا کَرِیۡمًا ﴿۲۳﴾
(ترجمہ)
اور تیرا پروردگار صاف صاف حکم دے چکا ہے تم اس کے سوا اور کسی کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا ۔ اگر تیری موجودگی میں ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے میں پہنچ جائیں تو ان کے آگے اُف بھی نہ کہنا ،نہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا بلکہ ان کے ساتھ ادب و احترام سے بات کرنا ۔

(بنی اسرائیل:23)

مذکورہ آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے جہاں اپنی عبادت کا حکم دیا اسی کے ساتھ یہ بھی فرمایا کہ والدین کے ساتھ حُسن سلوک کرو اور اُف تک بھی نہ کہو،والدین کی عزت واحترام دینی و دنیاوی بہتری کا سبب ہوتا ہے خوش نصیب ہیں وہ لوگ جن کے سروں پر والدین کا سایہ ہے اور سعادت مند ہے وہ اولاد جو ہر حال میں اپنے والدین کے ساتھ حُسن سلوک رکھتی ہے اور ان کا احترام کرتی ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

وَ اعۡبُدُوا اللّٰہَ وَ لَا تُشۡرِکُوۡا بِہٖ شَیۡئًا وَّ بِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًا وَّ بِذِی الۡقُرۡبٰی وَ الۡیَتٰمٰی وَ الۡمَسٰکِیۡنِ وَ الۡجَارِ ذِی الۡقُرۡبٰی وَ الۡجَارِ الۡجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالۡجَنۡۢبِ وَ ابۡنِ السَّبِیۡلِ ۙ وَ مَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ مَنۡ کَانَ مُخۡتَالًا فَخُوۡرَا ﴿ۙ۳۶﴾
ترجمہ :-

اور اللہ کی عبادت کرو ، اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ ، اور والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرو ، نیز رشتہ داروں ، یتیموں ، مسکینوں ، قریب والے پڑوسی ، دور والے پڑوسی ، ( ٢٩ ) ساتھ بیٹھے ( یا ساتھ کھڑے ) ہوئے شخص ( ٣٠ ) اور راہ گیر کے ساتھ اور اپنے غلام باندیوں کے ساتھ بھی ( اچھا برتاؤ رکھو ) بیشک اللہ کسی اترانے والے شیخی باز کو پسند نہیں کرتا ۔

(النساء:36)

اللہ تعالیٰ مزید فرماتا ہے۔
یَسۡئَلُوۡنَکَ مَا ذَا یُنۡفِقُوۡنَ ۬ ؕ قُلۡ مَاۤ اَنۡفَقۡتُمۡ مِّنۡ خَیۡرٍ فَلِلۡوَالِدَیۡنِ وَ الۡاَقۡرَبِیۡنَ وَ الۡیَتٰمٰی وَ الۡمَسٰکِیۡنِ وَ ابۡنِ‌السَّبِیۡلِ ؕ وَ مَا تَفۡعَلُوۡا مِنۡ خَیۡرٍ فَاِنَّ اللّٰہَ بِہٖ عَلِیۡمٌ ﴿۲۱۵﴾

ترجمہ

لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ وہ ( اللہ کی خوشنودی کے لیے ) کیا خرچ کریں؟ آپ کہہ دیجیے کہ جو مال بھی تم خرچ کرو وہ والدین ، قریبی رشتہ داروں ، یتیموں ، مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہونا چاہئے ۔ اور تم بھلائی کا جو کام بھی کرو ، اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے ۔

(البقرہ:215)

رسول کریم ﷺ نے بھی ہمیں والدین سے حُسن سلوک کا حکم دیا ہے آپﷺ نے فرمایا کیا میں تم کو سب سے بڑے گناہ بتلادوں؟ لوگوں نے عرض کیا، کیوں نہیں یارسول اللہ ﷺ، آپ ﷺ نے فرمایا، اللہ کا شریک نہ ٹھہرانا اورنہ والدین کی نافرمانی کرنا۔

والدین کی حیثیت گھر میں نگران کی ہے ۔ اولاد اگر سنجیدگی اور تدبر سے کام لے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کے بعد صحیح معنوں میں قابل احترام اور لائق اطاعت اگر کوئی ہستی ہے تو وہ والدین ہیں۔والدین کی اطاعت اور فرمانبرداری بھی عبادت میں داخل ہے، لیکن اگر والدین کوئی ایسا حکم دیں جو شریعت کے خلاف ہو تو ان کی اطاعت فرض نہیں بلکہ شریعت کی اطاعت ضروری ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے (ترجمہ) ’’اور وہ دونوں (والدین) تجھ پر اس بات کا دباؤ ڈالیں کہ تُو میرے ساتھ شریک کرے جس کا تجھے علم نہ ہو تو تُو ان کا کہنا نہ ماننا ،ہاں دنیا میں ان کے ساتھ اچھی طرح بسر کرنا‘‘ والدین کا مقام و مرتبہ اس قدر اہم ہے کہ توحید و عبادت کے بعد اطاعت و خدمت والدین کو ضروری قرار دیا گیا کیونکہ جہاں انسانی وجود کا حقیقی سبب اللہ ہے تو وہیں ظاہری سبب والدین۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ شرک کے بعد سب سے بڑا گنا ہ والدین کی نافرمانی ہے،جیسا کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ کے ساتھ شرک کرنا اور والدین کی نافرمانی کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔

(صحیح بخاری)

ماں باپ کی نافرمانی تو کجا ، ناراضگی کے اظہار اور جھڑکنے سے بھی روکا گیا ہے اور ادب کے ساتھ نرم گفتگو کا حکم دیا گیا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے (ترجمہ) ’’اور اپنے والدین کو جھڑک مت اور ان سے نرمی سے پیش آ۔‘‘ نیز اللہ تعالیٰ پوری زندگی والدین کے لئے دعا کرنے کا حکم دیتا ہے۔ چنانچہ فرمایا (ترجمہ) اور تو کہہ کہ اے میرے رب میرے والدین پر رحم کر جس طرح بچپن میں انہوں نے میری تربیت کی۔

(بنی اسرائیل: 25)

حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے دریافت کیا کہ اللہ کو کون سا عمل زیادہ محبوب ہے؟آ پ ﷺ نے ارشاد فرمایا نماز کو اس کے وقت پر ادا کرنا ۔ حضرت عبداللہ ؓ فرماتے ہیں میں نے کہا اس کے بعد کون سا عمل اللہ تعالیٰ کو زیادہ پسند ہے؟ تو آپﷺ نے فرمایا والدین کی فرمانبرداری۔

(صحیح بخاری)

حضرت عبداللہ بن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میں اللہ تعالیٰ سے اجر کی امید کے ساتھ آپؐ کے ساتھ ہجرت اور جہاد کرنے کیلئے بیعت کرنا چاہتا ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کیا تمہارے ماں باپ میں سے کوئی زندہ ہے؟ تو اس شخص نے کہا: دونوں حیات ہیں ۔ نبی اکرم ﷺ نے اس شخص سے پوچھا: کیا تو واقعی اللہ تعالیٰ سے اجر عظیم کا طالب ہے؟ اس نے کہا ہاں۔ تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اپنے والدین کے پاس جا اور ان کی خدمت کر۔

(صحیح مسلم)

ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر دریافت کیا کہ میرے حُسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟
آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا تمہاری ماں ۔ اس شخص نے پوچھا پھر کون؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا تمہاری ماں۔ اس نے پوچھا پھر کون؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا تمہاری ماں ۔ اس نے پوچھا پھر کون؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا تمہارا باپ۔

(صحیح بخاری)

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: باپ جنت کے دروازوں میں سے بہترین دروازہ ہے ۔ چنانچہ تمہیں اختیار ہے خواہ ( اس کی نافرمانی کرکے اور دل دکھا کے) اس دروازہ کوضائع کردو یا ( اس کی فرمانبرداری اور اس کو راضی رکھ کر) اس دروازہ کی حفاظت کرو۔

(جامع ترمذی)

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص کو یہ پسند ہو کہ اس کی عمر دراز کی جائے اور اس کے رزق کو بڑھا دیا جائے اس کو چاہئے کہ اپنے والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرے ، اور رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرے ۔

(مسند احمد بن حنبل)

آپ ﷺنے ارشاد فرمایا وہ شخص ذلیل وخوار ہو۔ عرض کیا یا رسول اللہ ! کون ذلیل و خوار ہو ؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا وہ شخص جو اپنے ماں باپ میں سے کسی ایک یا دونوں کو بڑھاپے کی حالت میں پائے پھر(ان کی خدمت کے ذریعہ) جنت میں داخل نہ ہو۔

(صحیح مسلم)

حضرت ابو اسید الساعدی ؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم لوگ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر تھے کہ بنی سلمہ کا ایک شخص حاضر ہوا اور پوچھنے لگا کہ یارسول اللہ ؐ! والدین کی وفات کے بعد کوئی ایسی نیکی ہے جو میں ان کے لئے کرسکوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا ۔ ہاں کیوں نہیں ۔ تم ان کے لئے دعائیں کرو،ان کے لئے بخشش طلب کرو ، انہوں نے جو وعدے کسی سے کر رکھے تھے انہیں پورا کرو ۔ ان کے عزیز و اقارب سے اسی طرح صلہ رحمی اور حُسن سلوک کرو جس طرح وہ اپنی زندگی میں ان کے ساتھ کیا کرتے تھے اور ان کے دوستوں کے ساتھ عزت و اکرام کے ساتھ پیش آؤ۔

(ابوداؤد کتاب الادب باب فی برالوالدین)

حضرت انس بن مالک ؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ۔ جس شخص کی خواہش ہو کہ اس کی عمر لمبی ہو اور رزق میں فراوانی ہو تو اس کو چاہئے کہ اپنے والدین سے حُسن سلوک کرے (اور اپنے عزیزواقارب کے ساتھ بنا کر رکھے) اور صلہ رحمی کی عادت ڈالے۔

(مسند احمد بن حنبل)

انسان کی پیدائش کا مقصد ہی یہ ہے کہ اللہ کو راضی کرے ، اس کو حاصل کرنے کا آسان طریقہ آنحضور ﷺ نے بیان فرمایا کہ بندے سے اللہ کا راضی ہونا بندے سے اللہ کا ناراض ہونا، والدین کی رضامندی و ناراضگی کے ساتھ وابستہ ہے۔
ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا رب کی رضا مندی والد کی رضا مندی میں ہے،رب کی ناراضگی والد کی ناراضگی میں ہے۔

(الجامع الصغیر)

حضرت ابو طفیل ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت ﷺ کو مقام جعرانہ میں دیکھا ۔ آپ گوشت تقسیم فرما رہے تھے ۔ اس دوران ایک عورت آئی تو حضور ﷺ نے اس کے لئے اپنی چادر بچھا دی اور وہ عورت اس پر بیٹھ گئی ۔ میں نے لوگوں سے پوچھا کہ یہ کون خاتون ہیں جس کی حضور ﷺ اس قدر عزت فرما رہے ہیں؟ لوگوں نے کہا یہ حضور ﷺ کی رضاعی والدہ ہیں۔
قرآن وحدیث کی روشنی میں یہ بات نہایت واضح ہوجاتی ہے کہ والدین کی نافرمانی بہت بڑا گناہ ہے۔ والدین کی ناراضگی اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا سبب بنتی ہے۔ لہٰذا ہمیں والدین کی اطاعت اور فرمانبرداری میں کوئی کوتاہی نہیں کرنی چاہئے۔ خاص کر جب والدین یا دونوںمیں سے کوئی بڑھاپے کو پہنچ جائے تو انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا حتیٰ کہ ان کو اُف تک نہیں کہنا چاہئے۔ ادب و احترام محبت و خلوص کے ساتھ ان کی خدمت کرنی چاہئے۔ ان کا ادب واحترام کرنا چاہئے۔ ان سے محبت کرنی چاہئے۔ ان کی فرمانبرداری کرنی چاہئے۔ ان کی خدمت کرنا،ان کو حتی الامکان آرام پہنچانا ، ان کی ضروریات پوری کرنا ، یہ سب ہماری ذمہ داریوں میں شامل ہے۔سال یکم جون کو دنیا بھر میں والدین کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس کا مقصد والدین کو خراج تحسین پیش کرنا ہے۔ بلاشبہ ماں، باپ قدرت کی عظیم نعمت ہیں۔ وہ بچّے کو پیدائش سے لے کر اُس کی تعلیم وتربیت اور معاشرے میں زندہ رہنے کے قابل بنانے تک اہم کردار ادا کرتے ہیں، اُس کی ہر ہر قدم پر رہنمائی کرتے ہیں، اُسے زمانے کے ہر سردوگرم سے بچاتے ہیں، گویا اُس کے لیے اپنی زندگیوں کو وقف کردیتے ہیں، لیکن افسوس کہ جب وہی اولاد بڑی ہوجاتی ہے تو والدین کو اکیلا چھوڑ دیتی ہے۔ حالاںکہ اُس وقت اُن کو اُس کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ ایسی کتنی ہی مثالیں ہمارے معاشرے میں بھری پڑی ہیں کہ اولاد نے بڑھاپے میں ماں باپ کو گھروں سے نکال دیا، بے سہارا چھوڑ دیا، اُن کے ساتھ ناروا سلوک کیا، اولڈ ہاؤسز میں داخل کرادیا۔ کیا یہ سچ نہیں کہ بچّے جب بڑے ہوجاتے ہیں تو اپنے والدین سے انتہائی بدتمیزی سے بات کرتے ہیں، اُن کی نافرمانی وتیرہ بنالیتے ہیں، اولاد کے پاس والدین کے لیے وقت نہیں ہوتا۔ وہ دُنیاوی مشاغل میں اس قدر مصروف ہوتے ہیں کہ ماں باپ کے پاس دوگھڑی بیٹھنا اُن کے لیے دُشوار ہوجاتا ہے۔ والدین بوجھ لگنے لگتے ہیں۔ افسوس کہ نافرمان اولاد کے قصے کہانیاں زبان زدعام ہیں۔مدینہ منورہ میں مسجد نبوی شریف کے امام و خطیب شیخ ڈاکٹر علی الحذیفی نے جمعہ کا خطبہ والدین کے حقوق کے موضوع پر دیا۔ انہوں نے کہا کہ تمام بندگان خدا دوسروں کے حقوق ادا کرنے کے پابند ہیں۔ سب سے پہلے اللہ کاحق آتا ہے۔ ہر فرد کو اللہ کے حقوق بلا کم و کاست ادا کرنے ضروری ہیں۔ جو لوگ حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی کا مظاہرہ کرتے ہیں وہ سزا کے مستحق ہوجاتے ہیں۔

امام مسجد نبوی نے کہاکہ پانچوں نمازوں کی بروقت باجماعت ادائیگی اللہ کا حق ہے۔ اللہ او ررسول کے حقوق کے بعد سب سے پہلے والدین کے حقوق کا نمبر آتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن پاک میں اپنے حق کا ذکر کرتے ہی والدین کے حقوق کا ذکر کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے والدین کے حقوق پر اسلئے بہت زیادہ زوردیا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ، والدین ہی کی بدولت انسان کو جنم دیتے ہیں۔ ماں بچے کی پیدائش کے حوالے سے غیر معمولی مشقت اور زحمت جھیلتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام مسلمانوں کو والدین کی خدمت کی غیر معمولی تاکید کی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبردار کیا ہے کہ ایسا انسان جسے اپنے بوڑھے والدین نصیب ہوں یا ان میں سے کوئی ایک اس کی زندگی میں ہو اور پھر وہ جنت میں داخلے کا اہتمام نہ کرے تو وہ بدقسمت ہے۔ اسلام نے والدین کی اطاعت کا دائرہ بھی متعین کیا ہے۔ اگر وہ کسی معصیت کا حکم نہیں دیتے تو انکی اطاعت واجب ہے۔ معصیت میں انکی تابعداری سے اولاد کو استثنیٰ دیا گیا ہے۔ والدین کو اولڈ ہوم بھیجنا یا انکی نگہداشت میں کمی کرنا انکے ساتھ ظلم اور بڑا گناہ ہے۔ یہ غیر اسلامی طرز عمل ہے۔

ادب اور اخلاق معاشرے کی بنیادی حیثیت کا درجہ رکھتا ہے، جو معاشرے کو بلند تر کرنےمیں نہایت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ادب سے عاری انسان اپنا مقام نہیں بنا سکتا۔ کہاوت ہےکہ ’’باادب بانصیب اور بے ادب بدنصیب‘‘ یعنی ادب ایک ایسی صنف ہے جو انسان کو ممتاز بناتی ہے۔ ادب و آداب اور اخلاق کسی بھی قوم کا طرۂ امتیاز ہے۔ اسلام نے بھی ادب و آداب اور حسن اخلاق پر زور دیا ہے۔

مذہب اسلام نے ہر رشتے کے حقوق وضاحت کے ساتھ بیان فرما دیئے ہیں۔ ادب و آداب کی تعلیم بھی دی گئی ہے، جس میں سرفہرست والدین کے حقوق اور ان کا ادب ہے۔ اس کے علاوہ اساتذہ کا احترام، پڑوسیوں کے حقوق معاشرے کے ستائے ہوئے افراد بھی شامل ہیں۔ یہ تمام افراد بھرپور توجہ اور احترام کے مستحق ہیں۔

خدمت خلق ہی ایک ایسا فعل ہے جس سے انسان کی عظمت کا صحیح طورپر پتا چلتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے ذمے دو فرائض لگائے ہیں ایک اس مالک کل کی اطاعت دوسرے اس کے بندوں سے پیار۔ یعنی ایک حقوق اللہ اور دوسرے حقوق العباد۔ ہمارے نوجوان معاشرے کا اہم حصہ ہیں اور ان کی اخلاقی ذمے داریوں کا معاشرے کے بزرگ افراد، والدین ، اساتذہ سے براہ راست تعلق ہے، لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ادب کے حوالے سے نوجوانوں کا منفی رویہ کافی تکلیف دہ ہے۔

آج بوڑھے والدین کے ساتھ نوجوان جو کچھ کرتے ہیں وہ کسی سے مخفی نہیں۔ اکثر میڈیا پر یہ خبر دیکھنے اور پڑھنے کو ملتی ہے کہ چند روپوں یا جائیداد کی خاطر بزرگ والدین کو قتل کردیا۔ آج کے بچے، نوجوان والدین کو بات بات پر ڈانٹنے، جھڑکنے اور بلند آواز سے بات کرنے میں تھوڑی بھی شرم محسوس نہیں کرتے۔ ماں باپ کسی چیز کے متعلق پوچھ لیں تو بھنویں تن جاتی ہیں مگر یہی نوجوان بچپن میں والدین سے جو کچھ پوچھتے تو والدین خوشی خوشی بتاتے تھے۔

ماں باپ کے آگے صرف دو وقت کی روٹی رکھ دینا ہی سب کچھ نہیں ہے بلکہ والدین کی اطاعت، فرمابرداری، ادب و آداب ہی باادب اور کامیاب انسان بناتے ہیں۔والدین کی دعائیں کامیابی کا زینہ ہیں جس کی بدولت آپ ایک کامیاب انسان بن کر ملک وقوم کا نام روشن کرسکتے ہیں۔ والدین کے غصے کے آگے آپ کی برداشت اور غفودرگزر ادب و آداب کی بہترین قابل تعریف مثال ہے۔ والدین کی ناراضی وقتی ہوتی ہے اور آپ کے اس عملی مظاہرہ سے والدین کے دل میں آپ کی جگہ بن جائے گی اور ان کی شفقت و محبت میں مزید بہتری آئے گی۔ آپ کی تقلید میں چھوٹے بہن بھائی اور گھر کے دیگر افراد بھی آپ کے نقش قدم پر چلیں گے۔
قارئین کرام! آج اپنے رب کو گواہ بنا کر ایک عہد کریں کہ والدین کے ساتھ جو پہلے بے ادبی برتی گئی اس پر معافی مانگتے ہیں ۔اور آئندہ کے لیے ان کی عزت کرنے کی توفیق مانگتے ہیں۔

Latest from بلاگ