پاکستان میں روانہ 8 بجے زیادتی کا شکار ہوتے ہیں اغواء ہونے والوں کی تعداد الگ ہے کچھ سالوں سے اچانک اس تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے جہاں حکومت ادارے اسکی روک تھام میں ناکام وہی والدین بھی بچوں کی حفاظت پر خاص توجہ دیتے دکھائی نہیں دیتے ایسے کتنے کیسز ہیں جن میں بچے گھروں سے باہر چیز لینے جاتے مگر واپس نا آتے جیسا آج کل ماحول ہے رشتےداروں پر بھی بھروسہ کرنا مشکل ہے اکثر کیسز میں قریب کے لوگ ہی ملوث پائے جاتے ہیں پھر وہ پڑوس کے ہی کیوں نا ہوں کچھ عرصہ قبل زینب ریپ کیس میں پڑوسی ہی مجرم تھا جو ناک کے نیچے رہا مگر کسی کو شک نا ہوا وہ اپنے انجام کو پہنچا اس کے باوجود کوئی خاص ڈر خود ایسے درندوں میں نا پایا گیا آخر وجہ کیا ہے کچھ لوگ کہتے یہ بے حیائی کا نتیجہ تو جناب تین چار سال کی بچی کیا بے حیائی کرتی نوجوان لڑکے کیا خود کو چادر میں لپیٹ کر گھر سے باہر نکلیں عورت کو پردے کا طعنہ دینے والے مردوں کی نظروں میں شرم کی کمی کیا ایسے واقعات کا خمیازہ نہیں تعلیمی ادارے، مدارس، ہسپتال کی نرس ہو یا فیکٹری میں جاب کرنے والی مجبور ماں کس طرح خود کو ان واقعات سے بچائیں ایسے وقت میں جہاں حکومت کو سخت اقدامات کرنے چاہئیں وہی ہمارے وزیراعظم سارا ملبہ خواتین کے کپڑوں پر ڈال دیتے ہاں وہ ڈی چوک کے دھرون کو بھول چکے جہاں 126دن خواتین و مرد سب ساتھ روزانہ علم کی روشنی جلاتے تھے اس وقت اقتدار کی بھوک تھی تو سب اچھا تھا آج اقتدار کا نشہ ہے تو عورت بے حیا ریپ کیسز کی جڑ ! تو بتائیں جناب 3 سالہ بچی کو لاہور کے ایک اسکول میں درندگی کا نشانہ بنانے والے درندے کون تھے ؟ بوائز ہاسٹل میں نوجوان کو زیادتی کا نشانہ بنانے والے کون ہیں ؟ جہاں ساری زمہ داری والدین پر ڈالی جاتی وہی ہماری حکومت اپنی کارکردگی پر کب دھیان دیگی حکومتی وزراء خو آئے دن اسکینڈلز کا شکار رہتے ہیں وہ کیا ہمارے بچوں ماں بہنوں پر ہونے والی اس درندگی پر آواز اٹھائیں گے ؟ کب سرعام پھانسی کا بل پاس ہوگا ؟ کب ایسے درندوں کو سنسار کیا جاے گا؟ یا یہ مان لیں ہم کے ہمیں خود ہی ایسے شیطانوں کا خاتمہ کرنا ہوگا قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں کوئی اس ماں سے پوچھے جس کی پھول جیسی بچے بنا کپڑوں کے خون میں لت پت مردہ حالت میں کچرہ کنڈی پر ملے وہ ماں کیا جانے قانون اس بے بس باپ کو کن الفاظوں میں آپ حوصلہ دینگے جس کی اک لوتی اولاد سڑک پر لٹ جاے اور حکومت کہے تحقیقات جاری ہے کیسے ملے گا ان والدین کو سکون جن کی بچیوں کو نوکری کا جھانسہ دے کر برہنا ویڈیوز بنا کر بلیک میل کرکے غلط کام پر لگایا جاتا

کہتے ہیں ٹک ٹاک بین کریں ٹک ٹاک فساد ہے” آپ کو بنا دوں کے ٹک ٹاک سے بڑھ کر یوٹیوب پر مواد پایا جاتا ہے توکیا ہم یوٹیوب پر پابندی کا ٹرینڈ چلائیں ؟ ایسی کتنی ایپس ہیں وہ سب بند کردیں ہمارے پاکستانی ایڈز کیا کم ہیں بے حیائی پھیلانے میں ان پر پابندی کیسے ممکن ہوگئی ؟ رمضان ٹرانسمشن کے نام پر خواتین کو نچوانے والے حکومتی وزراء کے خلاف کب آواز اٹھائے گا کوئی ؟ ہم ناامید ہوچکے ہیں مان لیں والدین کو چائیے اب اس پڑوس سے لے کر کسی ادارے پر بھروسہ کرکے اپنے لخت جگر کو اکیلا باہر نا چھوڑیں نا کسی کے ساتھ جانے دیں آپ کی اولاد کا خیال صرف آپ رکھ سکتے ہیں دوسرا کوئی نہیں تو آج سے عہد کریں ہمارے بچے ہماری زمہ داری اللہ پاک سب کے بچوں کو اپنے حفظ وامان میں رکھے آمین

Shares: