ماہ محرم الحرام کو اسلام سمیت تمام مذاہب اور تاریخ عالم میں خاص فضیلت و احترام حاصل ہے۔ یہاں تک کہ زمانہ جاہلیت میں بھی عربوں سمیت تمام اقوام عالم اس ماہ کی حرمت اور تقدیس و احترام کا خیال رکھتی تھیں۔ یوں تو محرم الحرام کا سارا مہینہ ہی تقدیس و احترام اور بڑی فضیلت والا ہے مگر یوم عاشورہ کو فضیلت و احترام میں باقی ایام پر امتیاز حاصل ہے۔ یوم عاشورہ کو ابدی اہمیت و فضیلت واقعہ کربلا کے بعد نصیب ہوئی جب سن 61 ہجری میں عاشورہ کے روز نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، جگر گوشہ بتول پسر حیدر کرار حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی مختصر سپاہ سمیت خاک کربلا پر اپنے مقدس و معطر لہو سے داستان عشق و وفا رقم کی۔ سید الشہداء حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ اور آپ کے 72 جانثاروں کی شہادت تاریخ انسانی کا وہ نادر و نایاب واقعہ ہے جس سے کائنات میں موجود ہر شے متاثر ہوئی۔ انسان و حیوان، زمین و آسمان، شمس و قمر، بحر و بر، برگ و ثمر، کوہ و دمن، چرند پرند الغرض ہر ذی روح اور ہر مظہر قدرت پر اس عظیم واقعہ نے ان مٹ نقوش ثبت کیے۔ یہ واقعہ کربلا کے تاریخ عالم پر گہرے نقوش کا اثر پے کہ آج چودہ صدیاں گزر جانے کے بعد بھی امام عالی مقام، آپ کے اہل خانہ اور آپ کے اصحاب کا تذکرہ کرتے ہوئے ہماری آنکھیں اشکبار ہوجاتی ہیں۔
قربانی، ایفائے عہد، صبر و استقامت، بندگی، بردباری، سخاوت و فیاضی، عزم و استقلال، حق گوئی و شجاعت اور رضائے الہی پر راضی ہوجانے کا جو عملی مظاہرہ حضرت امام حسین علیہ السلام نے کیا تاریخ انسانی اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے۔
سید الشہداء حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ و علیہ السلام نے جس ثابت قدمی سے راہ حق پر کاربندی کا مظاہرہ کیا یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ شہید ہو کر بھی تاریخ میں "زندہ باد” ہیں اور یزید آپ رضی اللہ تعالی عنہ کا سر تن سے جدا کرکے بھی "مردہ باد” ہے۔
اس صورت حال میں یہ کہنا بےجا نہ ہوگا کہ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ اور آپ کے جانثاروں نے میدان کربلا میں راہ حق پر اپنی جانیں قربان کرکے بےمثل و لازوال نظریاتی فتح حاصل کی۔ میدان کربلا میں حضرت امام نے یہ ایسی شاندار اور لازوال فتح اپنے نام کی کہ جس کا سکہ آج چودہ صدیاں گزرنے کے باوجود بدستور رائج ہے۔ واقعہ کربلا اقوام عالم کو علی الاعلان یہ پیغام دے رہا ہے کہ ظلم و بربریت کا دور مختصر اور باطل نظریات کی جیت وقتی، ناپائدار اور زوال پذیر ہے جبکہ حق کی حکمرانی ابدی اور ہمیشہ قائم رہنے والی ہے۔
واقعہ کربلا کا بغور مطالعہ کرنے سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ یزید نے امام عالی مقام کو آپ کے خاندان اور اصحاب سمیت بے دردی سے شہید کرکے خود کو فاتح اور خلیفہ برحق ثابت کرنے کی جو مذموم کوشش کی وہ کسی صورت برگ و ثمر بار نہ ہوسکی۔ الٹا اس کی وہ وقتی جیت ہی اس کی ابدی شکست و رسوالی کا پیش خیمہ ثابت ہوئی کیونکہ امام عالی مقام شہید ہو کر بھی لوگوں کے دلوں پر حق و صداقت کا عظیم منارہ بن کر راج کر رہے ہیں جبکہ یزید بظاہر جنگ جیت کر بھی ازلی ذلت و رسوائی اور نجاست کی علامت بن کر رہ گیا۔ یہ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی تا ابد قائم رہنے والی نظریاتی فتح کا نتیجہ ہے کہ واقعہ کربلا کے بعد حق و باطل کو حسینیت و یزیدیت کی کسوٹی پر پرکھا جاتا ہے جہاں حسینیت کو حق و سچ اور صراط مستقیم کے معیار کے طور پر جانا جاتا ہے جبکہ یزیدیت کو ظلم، بغض، بزدلی اور باطل نظریات کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔
میرے نزدیک واقعہ کربلا ایک مکمل فلسفہ حیات ہے جو اپنے اندر نوع انسانی کے لیے ان گنت سبق آموز پیغامات چھپائے ہوئے ہیں۔ جن پر غور وفکر کی آج کے دور میں بے حد ضرورت ہے۔
واقعہ کربلا سے منسلک سب سے اہم سبق میرے نزدیک یہ ہے کہ اللہ رب العزت امتحان اور آزمائش کے لیے ہمیشہ سے ہی اپنے متقی، برگزیدہ، محبوب اور مقرب بندوں کا انتخاب کرتا ہے جب کہ ظالم کی رسی عذاب الہی کا شکار ہوکر تباہ و برباد ہونے تک دراز ہے۔
کلمہ حق ظالم و جابر حکمران کے سامنے بلند کرنا اور احکام خداوندی پر کسی صورت سمجھوتا نہ کرنا چاہے جان، مال، اولاد اور آبرو قربان ہو جائے. یہ واقعہ کربلا سے منسلک دوسرا بڑا سبق ہے اور یہی اصل حسینیت ہے کہ ہم اپنی زندگی میں حق پر قائم ہوجائیں اور ہم صراط مستقیم پر ثابت قدمی سے ڈٹے رہیں چاہیے اس کے لیے ہمیں کتنی ہی بڑی قربانی کیوں نہ دینی پڑے۔ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی و علیہ السلام کی زندگی اور آپ کی شہادت ایک مکمل اور جامع فلسفہ حیات ہے۔ آپ نے اپنی زندگی اور شہادت کے ذریعے رضائے الہی، صبر و استقامت اور عزم و وفا کی لازوال مثال قائم کی جو رہتی دنیا تک قائم رہے گی۔ اللہ پاک ہمیں فلسفہ شہادت امام حسین کی اصل روح کو سمجھنے اور اس پر ثابت قدم رہنے کی توفیق بخشے۔
اللہ رب العزت ہمیں غم امام حسین رضی اللہ تعالی و علیہ السلام کو زندگی میں شامل کرنے کے ساتھ ساتھ سیرت و تعلیمات حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی و علیہ السلام پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ قلندر لاہوری مرشد اقبال رحمتہ اللہ علیہ کے اس شعر پر اختتام
حقیقتِ ابدی ہے مقامِ شبیری
بدلتے رہتے ہیں اندازِ کوفی و شامی
Twitter Handle: @DSI786