وزیر اعظم قبائلی علاقوں کی محرومیوں کا ازالہ کرنے میں ناکام ،عوام میں تشویش کی لہر

0
72

قبائلی نوجوان کے جذبات سے نہ کھیلئے
خبر ہے کہ وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت ضم شدہ اضلاع میں ترقیاتی منصوبوں کی پیش رفت کے حوالے سے جائزہ اجلاس میں سابقہ فاٹا میں جاری ترقیاتی عمل کا جائزہ لیا گیا ہے اور منصوبوں کو جلد پایہ تکمیل تک پہنچانے کی ہدایت دی گئی ہے۔

دوسری جانب دیکھا جائے تو فاٹا کے خیبر پختونخوا میں انضمام کے بعد بھی قبائلی عوام کی مایوسیوں میں کمی نہیں آرہی۔ امن و امان کی صورتحال بھی اتنی اطمینان بخش نہیں ہے جتنی کی توقع کی جارہی تھی۔ قبائلی عوام بالخصوص نوجوانوں کو سنا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ صرف زبانی جمع خرچ سے کام چلایا جارہا ہے

جبکہ سرکاری سرگرمیاں دیکھی جائیں تو لگتا ہے کہ حکومت پوری توجہ ضم شدہ قبائلی اضلاع پر مرکوز کئے ہوئے ہے۔ یہ گیپ کیوں ہے؟ اگر قبائلی اضلاع میں واقعی کوئی کام ہورہا ہے تو نوجوانوں کی جانب سے گلے شکوے کیوں سامنے آرہے ہیں؟ حکومت کو اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

ماضی میں فاٹا کو بری طرح نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔ یہاں پشاور میں فاٹا سیکرٹریٹ کے نام پر لوٹ مار کا اڈہ اتنی بھی پرانی بات نہیں، گورنرز، پولیٹیکل ایجنٹس، تحصیلدار اور دیگر عملہ جس طریقے سے فاٹا اور قبائلی عوام کو نوچتا نچوڑتا رہا ہے، یہ ظلم کی داستانیں ایسا نہیں ہے کہ ماضی کا حصہ بن گئی ہیں، سفاکی کی یہ داستانیں آج بھی رقم کی جارہی ہیں۔

صرف انتظامی حیثیت بدلی ہے، شکایات آج بھی ماضی سے مختلف نہیں ہیں۔ کیا حکمران نہیں جانتے کہ ڈپٹی کمشنرز، ڈی پی اوز اور ایس ایچ اوز آج بھی کیا کچھ نہیں کررہے؟ گراؤنڈ پر دیکھیں تو مایوسیوں اورمحرومیوں کی وسیع و عریض رقبے پر پھیلی داستانیں ہیں لیکن سرکاری بریفنگز میں خوبصورت ڈیزائن کئے گئے

گرافکس کا جائزہ لیں تو لگتا ہے کہ سابقہ فاٹا میں دودھ اور شہد کی نہریں بہائی جانے لگی ہیں۔ خیبر پختونخوا کے پچھلے بجٹ کے اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو وہ کچھ اور کہانی سناتے ہیں۔ اگلے بجٹ میں کم عرصہ رہ گیا ہے لیکن پچھلے بجٹ کا نو مہینے میں ضم شدہ قبائلی اضلاع کے لئے مختص سالانہ ترقیاتی پروگرام کا صرف ایک چوتھائی حصہ ہی استعمال ہوسکا۔

اس سے قبائلی اضلاع میں ترقی کی رفتار کا پتہ لگایا جاسکتا ہے۔ صوبائی حکومت کے مظابق قبائلی اضلاع میں بنیادی ڈھانچے کی بحالی بالخصوص عمارتوں اور سڑکوں کی تعمیر پر بنیادی توجہ دی جارہی ہے، ترقیاتی فنڈزکے استعمال میں تیزی لانے کے لئے حکومت نے بار بار الگ حکمت عملی کی تیاری کی بات کی مگر یہ شاید وزیر خزانہ تیمور سلیم جھگڑا بھی پہلے سے تیار گرافکس پر مبنی پریزینٹیشن کے بغیر نہ بتا سکیں کہ رواں مالی سال کے بجٹ میں ترقیاتی کاموں کے لئے مختص 96 ارب روپے میں سے جو 41 ارب روپے جاری کئے گئے

وہ کہاں کہاں کیسے استعمال ہوئے اور اس خطیر رقم سے قبائلی عوام کی زندگی میں کیا انقلاب برپا ہوا؟ اب اگر فنڈز بروقت استعمال نہیں ہوسکے تو کیا یہ محکموں کی غفلت ہے، سرکاری اہلکاروں کی نااہلی ہے یا وزیر خزانہ اور ان کی ٹیم کی کوتاہی ہے؟ محکموں کی غفلت کے باعث سرکاری محکمے اگر صرف 24 ارب 88 کروڑ روپے ہی نو ماہ میں خرچ کرسکے تو کیا باقی رقم کے لئے جون کا انتظار کیا جاتا رہا؟

محکمہ خزانہ کی دستاویزات کے مطابق قبائلی اضلاع میں سب سے زیادہ ترقیاتی فنڈز روڈ سیکٹر کو جاری کئے گئے ہیں۔ محکمہ تعلیم 11ارب روپے کے ترقیاتی فنڈ میں سے تین ارب، محکمہ صحت 10 ارب میں سے دو ارب 90 کروڑ اور ملٹی سیکٹر ڈویلپمنٹ کے تحت 8 ارب میں سے ایک ارب 60 کروڑ روپے خرچ ہوسکے۔

قبائلی علاقوں کی جانب کس قسم کی توجہ دی جارہی ہے اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب چار نوجوانوں کے قتل کے بعد بنوں میں جانی خیل قبائل نے لاشیں رکھ کر احتجاج کیا اور مذاکرات کے متعدد ادوار میں اپنے مسائل حکومتی ذمہ داران کے سامنے رکھے تب حکومت کو معلوم ہوا کہ قبائلی عوام کس قسم کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

اب جانی خیل کے قبائل کو صرف اس بات پر مطمئن کردیا گیا ہے کہ حکومت کو آپ کے مسائل معلوم ہوگئے ہیں۔ یہ ہم نہیں خود حکومت کی رپورٹس بتاتی ہیں کہ قبائلی اضلاع اس وقت ملک میں سب سے پسماندہ ترین علاقہ ہے، قبائلی علاقوں میں تعلیم کی شرح 34 فیصد ہے اور دہشت گردی اور ذاتی تنازعات کے باعث اس وقت قبائلی اضلاع میں سینکڑوں تعلیمی ادارے اور بنیادی مراکز صحت سالوں سے بند پڑے ہیں یا پھر ان میں نامعلوم افراد نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔

جو جائزہ اجلاس وزیراعظم عمران خان کی صدارت میں منعقد ہوا اس میں وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر، وزیر برائے مذہبی امور پیر نورالحق قادری، وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان، وزیر مملکت برائے اطلاعات فرخ حبیب، صوبائی وزیرِ خزانہ تیمور خان جھگڑا، ممبران قومی اسمبلی گل داد خان، گل ظفر خان، ساجد خان، محمد اقبال آفریدی، ملک فخر زمان اور متعلقہ وفاقی و صوبائی حکومتوں کے سینئر افسران شریک ہوئے۔

اجلاس کو بتایا گیا کہ ضم شدہ علاقوں کے حوالے سے اب تک 217 منصوبوں کی منظوری دی جاچکی ہے، ان میں تعلیم، صحت، مواصلات، آب پاشی، سپورٹس، لاء اینڈ جسٹس، زراعت، توانائی، پینے کے صاف پانی وغیرہ جیسے منصوبے شامل ہیں۔ اجلاس کو وفاق کی جانب سے ضم شدہ اضلاع کے لئے جاری شدہ رقوم اور اب تک کے اخراجات کے حوالے سے بریفنگ بھی دی گئی۔

وزیرِ اعظم نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حکومت ضم شدہ علاقوں کی تعمیر و ترقی کے لئے پرعزم ہے۔ انہوں نے کہا کہ مشکل مالی حالات اور کورونا کے باوجود رواں سال کے لئے وفاق کی جانب سے ضم شدہ علاقوں کے لئے 48 ارب روپے کے ریکارڈ ترقیاری فنڈز کی فراہمی ہمارے عزم کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یعنی یہ 48 ارب روپے اس مختص شدہ رقم کے علاؤہ ہے جو صوبائی حکومت نے بجٹ میں قبائلی اضلاع کے لئے مختص کئے۔

وزیرِ اعظم نے ہدایت کی کہ ضم شدہ اضلاع کے حوالے سے آئندہ سال کے بجٹ میں مقامی قیادت اور عوامی نمائندگان کی مشاورت سے ان منصوبوں کو ترجیح دی جائے جو عوام کی فوری ضرورت ہیں اور براہ راست اور کم ترین مدت میں عوام کے لئے فائدہ مند ثابت ہوں گے۔ وزیرِ اعظم نے بجا طور پر یہ ہدایت بھی کی کہ ترقیاتی منصوبوں کی پیش رفت کی

مانیٹرنگ اور مقررہ اہداف کے بروقت حصول پر نظر رکھنے کے لئے وفاق اور صوبائی حکومت کے نمائندگان پر مبنی کمیٹی تشکیل دی جائے۔ اجلاس میں شریک ممبران اسمبلی کا تعلق حکمران تحریک انصاف سے ہے۔ کیا یہ ضروری نہیں کہ قبائلی اضلاع کی مخصوص صورت حال، پسماندہ ترین حالت اور برسوں کی محرومیوں کے پیش نظر سیاست کو ایک طرف رکھ کر صرف اجتماعی قومی مفاد کے فیصلے کئے جائیں

اور ترقیاتی کاموں کے لئے مشاورتی عمل میں قبائلی اضلاع سے ان ممبران اسمبلی کو بھی شریک کیا جائے جو تحریک انصاف سے تعلق نہیں رکھتے؟ وقت آگیا ہے کہ قبائلی عوام بالخصوص نوجوانوں کے جذبات سے کھیلنے، ہر سال ان کو بجٹ کے اعداد وشمار سے ورغلانے اور خالی خولی اعلانات کے بجائے حقیقی معنوں میں ان کے دکھوں کا مداوا کیا جائے، کہ یہ ایک مستحکم اور مسائل سے پاک پاکستان کے لئے انتہائی ضروری ہے۔

Leave a reply