شکر ہے کہ ہمارے وقت میں سوشل میڈیا کا وجود نہ تھا وگرنہ جس طرح کل سے 29 میڈل لینے والے ڈاکٹر ولید کی مسلسل تحقیر کی جارہی ہے ، میں تو خودکشی کر لیتا۔
چونکہ میرا تعلیمی کیرئیر ڈاکٹر ولید سے مماثل ہے اور انجنئیرنگ یونیورسٹی میں اسی طرح ہم نے بھی گردن بھر میڈل لئے تھے تو میں کسی قدر جان سکتا ہوں کہ بے چارے ولید اور اس کے والدین اگر سوشل میڈیا ئی طوفانی پوسٹیں دیکھ رہے ہیں تو وہ بہت دُکھی ہوں گے۔ کیوں کہ اس اعزاز کو حاصل کرنے کے لئے پردے کے پیچھے کی عزم وۂمت کی داستان وہی جانتے ہیں۔
فرسٹریشن کے مارے کسی ڈاکٹر توصیف آفریدی نے بظاہراً نظام کے نوحے کے نام پر ایک پوسٹ لکھ ماری جس میں اس کا تقابل ایک ڈانسر لڑکی سے کیا گیا کہ جسے ندا یاسر تو اپنے شو میں بلاتی ہے یاسر شامی پیچھا کرتا ہے مگر اس لڑکے کو کوئی گھاس نہیں ڈالے گا۔ ڈاکٹر ولید کو ایک بے کار انشان کہا گیا کہ اس کی شکل دیکھ لو یہ آپ کو دوبارہ نظر نہیں آئے گا۔
زنگر برگروں نے ذہنی چسکے کے لئے اس پوسٹ کو خوب اٹھایا۔ کہا گیا کہ اس نے پریکٹیکل لائف میں آکر دھکے کھانے ہیں، نوکری نہیں ملنی، رشوت سفارش سے کوئی نوکری مل بھی گئی تو اسے کھڈے لائن لگا دیا جائے گا۔ اور اگر وہ ملک چھوڑ کر کہیں چلا جاتا ہے تو اس کا اپنی اگلی نسلوں پر احسان ہوگا۔اسے میڈل بیچ دینے تک کا کہا گیا۔
قسم لے لیں جو کسی ایک زنگر برگر نے بھی اس کی محنت اور جذبے کو سراہا ہو، اس کو کامیابی پر مبارک باد دی ہو یا ا س کے بہتر مستقبل کی دعا کی ہو ۔ ہماری ذہنی حالت اس سے زیادہ اور بانجھ اور اپاہج کیا ہوسکتی ہے۔
ٹیلنٹ اپنا راستہ خود بنا لیتا ہے۔ ڈاکٹر ولید کو جھوٹی سچی ہمدردی کے نام پر اپنی تحقیر کروانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ انشااللہ وہ ہمارا ایک بہت بڑا سرمایہ ثابت ہوگا۔
میرے گلے میں جب وزیراعلی پنجاب جناب شہباز شریف صاحب بار بار لگاتار میڈل ڈال رہے تھے تو میں اس وقت چھ ماہ سے جاری مسلسل بے کاری کی حالت میں تھا۔ اور الحمدللّٰہ ٹھیک بیس سال بعد میں ایک فرم اونر کے طور پر انکے شروع کردہ فارم ٹو مارکیٹ روڈ پراجیکٹ کی کنسل ٹینسی کا کانٹریکٹ لینے کے بعد ان سے کِک سٹارٹ میٹنگ کر رہا تھا۔
ہمارے نظام کی خرابیوں کو ہم لوگوں نے ہی ٹھیک کرنا ہے نہ کہ اپنے بہترین دماغوں کا ٹھٹہ اڑا کر انہیں بے عزت کرنا ہے، اپنے پڑھنے والے بچوں کا دماغ خراب کرنا ہے اور ان کے والدین کا مایوس کرنا ہے۔
ڈاکٹر ہو یا انجنئیر، ہمیشہ اسےاپنی پروفیشنل لائف سکریچ سے شروع کر نا پڑتی ہے اور اپنے فن سے اپنے فیلڈ میں نام بنانا پڑتا ہے۔
مانا کہ زندگی کے زمینی حقائق بہت تلخ ہیں، بہت دشواریاں، رکاوٹیں اور پریشانیاں ہیں لیکن ایک دن کے لئے ۔۔ صرف ایک دن کے لئے۔۔۔کیا ان سب مسائل کو اپنے ذہن سے جھٹک کر ہم کسی کی محنت اور کامیابی کو سیلی بریٹ نہیں کرسکتے؟
کیا ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ گو معاشرے میں بہت دشواریاں ہیں لیکن آپ کی بے مثل کامیابی کی وجہ سے آپ یقیناً لاکھوں میں ایک ہیں۔ آپ انشااللہ بہت ترقی کریں گے۔