ہمارے ملک کو ایک عرصے سے "دیوالیہ، دیوالیہ "کا لفظ بول بول کو اتنا ڈرایا جا رہا ہے کہ جیسے دیوالیہ ہونے کے بعد ہم سب زندہ درگور ہو جائیں گے،حالانکہ ایسا بالکل نہیں ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم واقعی دیوالیہ ہو جائیں تو دو فائدے ہوں گے۔
نمبر1: ہمیں اس کے بعد باہر سے کوئی قرض نہیں ملے گا، خاص طور پر عالمی مالیاتی ادارے جب کہ دوست ممالک کو کوئی نہیں روک سکتا،
اب اگر بیرونی قرضے نہ ملیں تو یہ ملک خصوصاً نچلے عوام کے لیے بہت اچھا ہے کہ قرضوں کا انہیں تو کوئی خاص فائدہ نہیں ہوتا اور لگ بھگ سارا قرضہ حکمران اور طاقتور ترین اشرافیہ کی عیاشی اور موج مستی میں اڑتا ہے جب کہ اس کا اصل اور سود عوام کو ادا کرنا پڑتا ہے اور یہ سود اور قرضہ عوام و ملک دونوں کے لیے سخت نقصان دہ ہیں۔
اگر ہم اپنی اوقات اور جیب کے مطابق خرچ کریں تو جیسے غریب آدمی چند ہزار میں بھی گزارہ کراور نظام چلالیتا تو ایسے ہی سب کچھ چل سکتا ہے، لیکن اس کے مقابل امیروں کا لاکھوں کی محض عیش اڑا کر بھی جی نہیں بھرتا۔
(اگر 4 کروڑ کی امپورٹڈ گاڑی میں نہ بیٹھا جائے اور بے حساب پیسے سے کلبوں کی موج مستی نہ کی جائے تو انسان کتنا گھس کر کمزور ہو گا ؟ یہی سوچ کر حساب لگا لیں ، یہی فرق ہے۔)
نمںر2: دیوالیہ ہونے کے بعد کسی دیوالیہ ملک پر یہ لازم نہیں رہتا کہ وہ بیرونی قرضے اور ان کا سود اس وقت تک ادا کرے کہ جب تک وہ خود یہ نہیں سمجھ لیتا اور اسکا اعلان کر نہیں دیتا کہ اب اس کے حالات مکمل ٹھیک ہو چکے ہیں اور اب وہ قرضہ اور اس کا سود ادا کر سکتا ہے۔
شاید آپ کے علم میں ہو کہ پاکستان نے اس سال 80 کھرب کے سالانہ بجٹ میں سے 38 کھرب بیرونی قرضوں اور سود کی ادائیگی کے لیے رکھے ہیں
اب اگر ہمارا ملک دیوالیہ ہو جائے تو یہ قرضہ اور سود دوبارہ مکمل بحالی تک معاف ہی رہے گا۔
یوں ذرا سوچیں ،اگر ملک کم از کم ایک سال دیوالیہ رہتا ہے تو نہ اسے نئے قرض کا بوجھ اٹھانے کو ملے گا اور نہ پرانی ادائیگی کرنا پڑے گی،اگر ہم وہی 38 کھرب اپنے ملک پر خرچ کریں تو کتنا بڑا فائدہ ہو سکتاہے ؟ آپ خود تصور کر لیں۔
دیوالیہ ہونے کا نقصان۔
دیوالیہ ہونے کے بعد آپ باہر اپنا مال بھیج یعنی برآمدات کر سکتے ہیں لیکن درآمدات مشکل ہو جاتی ہیں کیونکہ خریداری کے لیے ڈالر موجود نہیں ہوتے،
اب ایک ملک یہ کہہ دے کہ ہم دیوالیہ ہو چکے لہذا صرف انتہائی ضروری درآمدات ہی کریں گے تو اس پر کوئی پابندی نہیں رہتی جو اب ہم پر اس وقت لاگو ہے۔
اس سب کا سراسر نقصان حکمران و طاقت ور ترین اشرافیہ کو ہوتا ہے کہ جن کے کتے اور بلیوں کی مہنگی ترین خوراک بھی باہر سے آتی ہے۔ ان کا اپنا تو نہ ہی پوچھیں جو پھل سبزیاں بھی غیر ملکی کھاتے ہیں،
(دوسری طرف غریبوں کے کتے بلیاں گلیوں محلوں کا گند کچرا کھا کر بھی زندہ و صحت مند رہتے ہیں جب کہ یہ اسی اشرافیہ کے لیے زندگی موت کا مسلہ ہے )
آپ کو یاد ہو گا کہ چند ہفتے پہلے جب ہماری نئی حکومت نے درآمدات پر پابندی لگائی تھی تو اس میں کتوں بلیوں کی خوراک،ان کی ادویات اور ویکسین اور دیگر بیش قیمت انسانی غذائی اشیاء کو پہلے دن سے مستثنٰی رکھا گیا تھا۔ یہیں سے یہ سب کھیل سمجھ لیں۔
اب آپ خود بتائیں کہ ہم عام شہری روزانہ کتنی ایسی چیزیں کھاتے ہیں؟ جو براہ راست باہر سے پیک شدہ آتی ہیں۔(یہ سب آپ کو وہاں ہی ملے گا جہاں آپ شاید کبھی کبھار سیر کے لئے ہی گئے ہوں گے )
دیوالیہ ہونے کے نقصان کو سمجھنے کے لیے یہی کافی ہے
یہ بھی یاد رکھیں کہ دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں چین روس جاپان امریکا میکسیکو کینیڈا ارجنٹائن تک کئی کئی بار دیوالیہ ہو چکی ہیں لیکن وہ آج بھی قائم و مضبوط ہیں۔
دیوالیہ ہونا کسی ملک کی بنیاد یا عام عوام کا مسلہ قطعاً نہیں،یہ صرف اور صرف ایک خاص کلاس کا مسلہ ہے اور وہ اسے بنیاد بنا کر آج ملک کے غریب و پسے عوام کی ہڈیوں کا گودا بھی نچوڑ رہے ہیں۔۔۔۔۔۔
( سری لنکا کا معاملہ تھوڑا مختلف ہے، اس پر پھر بحث ہو گی )
ایک اور بات یاد رکھیں کہ دیوالیہ ریاست کے بیرون ملک جانے والے ہوائی یا بحری جہاز روکے جانے کا خطرہ ہوتا ہے جب کہ پاکستان کے پاس تقریبآ سارے ہوائی اور بحری جہاز لیز یا کرائے پر ہیں جنہیں روکا نہیں جاسکتا اور پاکستان ایک ایٹمی قوت ہے جس کی افراتفری عالمی تشویش کا باعث ہے ۔ اس لیے عالمی طاقتوں کی کوشش یہ ہے کہ پاکستان پر مسلسل دباؤ رکھا جائے اور اسے گھٹنوں پر لایا جائے اور اسے سب سے پہلے ایٹمی قوت سے محروم کیا جائے ، محض دیوالیہ سے ان کا پروگرام پورا نہیں ہو گا بلکہ مزید دور ہو جائے گا۔
( آپ کو بھی اس پر اپنی ماہرانہ رائے کا حق حاصل ہے لیکن لغو کلامی بازی سے پرھیز فرمایا،علمی و تحقیقی بات کی جائے )