کہاں کی صحافت
تحریر:حاجی محمدسعید گندی
صحافت سے وابستگی کی وجہ سے روزانہ کچھ نہ کچھ لکھنا پڑتا ہےجوکہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم اورمختلف قومی وریجنل اخبارات میں شائع ہوتا رہتا ہے۔ آج جی چاہا کہ اپنے شہر کی صحافت پر بات کروں ،ڈیرہ غازیخان 25 لاکھ سے زائد نفوس کی آبادی پرمشتمل شہر ہے یہاں کم و بیش پانچ سے سات پریس کلب اور درجنوں صحافی کہلانے والے معزز دوست موجودہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ ڈیرہ غازیخان کے اکثر صحافی پر خلوص جذبوں والے دوست ہیں لیکن کچھ لوگ ہماری صفوں میں بلیک میلر بھی ہیں جو اپنی دیہاڑی لگانے کے لیے پوری محنت کرتے ہیں وہ بھی ایمانداری کے ساتھ ۔
ڈیرہ غازی خان ایک قدیمی شہر ہونے کی وجہ سے یہاں صحافتی سلسلہ بھی قدیم ہے۔ ڈیرہ غازیخان کی دھرتی نے نامور قلم کاراور دانشور پیداکئے ہیں اس وقت شہر وگرد نواح کے اکثر صحافیوں کی تیسری نسل اسی پیشہ سے منسلک ہےاور صحافیوں کے حوالے سے یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ یہاں بمشکل درجن بھر صحافیوں نے صحافت کی تعلیم حاصل کی ہوئی ہے ۔صحافی بننے کے لئے دوسرے ملکوں باقاعدہ قانون ہیں،ان ممالک میں لوگ کٹھن مراحل سے گزر کر صحافی بنتے ہیں
اگر بات کریں اسلامی ملک سعودی عرب کی تو آپ سعودی شہری ہیں، صحافی بننا چاہتے ہیں تو آپ کو انتہائی سخت مراحل سے گزرنا ہوگا،سب سے پہلے آپ کی صحافت میں تعلیمی ڈگری اوراہلیت چیک ہوگی ، اس کے بعد آپ کی فصاحت، بلاغت، کتابت، اِملاء، کے ساتھ ساتھ وطن سے محبت کا معیار تک چیک کیا جاتا ہے کہ آیا یہ شخص وطن دشمن ایجنسیوں کا ایجنٹ تو نہیں ہےپھر سعودی وزارتِ اطلاعات و نشریات آپ کا تمام ڈیَٹا، ہاتھ پاؤں کے فنگر پرنٹ لےکرکمپیوٹرائزڈ کارڈ جاری کرتا ہےاتنے طویل صبر آزما مراحل کے بعد سعودی حکومت آپ کو اپنے متعلقہ اخبار / چَینل کے ساتھ کام کرنے کی باقاعدہ اجازت دے دیتی ہے۔
اگر آپ امریکی شہری ہیں اور صحافی بننا چاہتے ہیں تو امریکی حکومت کو جرنلزم میں ماسٹر ڈگری یا اس کے مساوی ڈگری پیش کرنا ہوگی، پھر اس کے بعد مختلف قسم کے تحریری امتحانات کے بعد آپ کو گورنمنٹ آف امریکہ کارڈ جاری کرتی ہے۔جس میں سٹیٹ سے وفاداری کا حلف نامہ بھی شامل ہوتا ہے۔
اگر آپ سکینڈے نیون کنٹریز (ناروے، سویڈن، ڈنمارک) کے شہری ہیں اور صحافی بننا چاہتے تو آپ کو سب سے پہلے صحافت میں 70فیصد مارکس کے ساتھ شعبہ صحافت کی ماسٹر ڈگری ،وزارت اطلاعات کو دکھانا ہوگی، وزارت اطلاعات جانچ پڑتال کے بعد آپ کو کسی بھی اخبار چینل کا رپورٹر بننے سے پہلے 180 دن کے تربیتی کورس پہ بھیجتی ہے جس کا خرچہ کورس کرنے والا خود اٹھاتا ہے
اب ذراہمارے پیارے ملک پاکستان کا معیار بھی دیکھ لیں، آپ کے پاس صحافتی ڈگری نہ بھی ہو، حتی کہ آپ اَن پڑھ ہیں، ویسے ان پڑھ صحافیوں کی تعداد اس وقت بہت زیادہ ہے اور انہوں نے بڑے بڑے اخبارات کی نمائندگی بھی حاصل کی ہوئی ہے انہوں نے خبروں کیلئے پرائیوٹ منشی بھی رکھے ہوئے ہیں۔
بہرحال آج کے دور میں پاکستان میں صحافی بننا کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے،آپ کے پاس ایک اچھا سا موبائل فون کیمرہ والا ہونا چاہئے, اور کِسی بھی برسوں سے بند پمفلٹ ٹائپ دَو وَرقی یا پی ڈی ایف اخبار کی یا ڈمی چینل کی نمائندگی جس کے لیے آپ کو دو فوٹو اور چند ہزار روپے ایڈیٹر کو بطور نذرانہ دینا ہونگے، اگلے روز آپ کا کارڈ بن کر آجائے گا،جلد مشہور ہونے کے لئے قریبی دوستوں سے مبارکباد کی پینافلیکس بنوا کے چوک چوراہوں میں لگوا دینے سے چند ماہ نہیں بلکہ چند دنوں میں سینئر صحافی تیارہوکر مارکیٹ میں آجاتا ہے
توبات ہورہی تھی ڈیرہ غازیخان کی صحافت کی یہاں صحافیوں کی تعداد سینکڑوں میں ہے ۔ان سینکڑوں صحافیوں میں سے اخبارات میں ریگولر کالم لکھنے یا لائیوٹاک شو زمیں بیٹھ کر قومی و بین الاقوامی ایشوز پر بات کرنےوالے نا ہونے کے برابر ہیں،شہر گردو نواح میں بہت اچھے صحافی بھی موجود ہیں جو لگن کے ساتھ ہر مسئلہ اجاگر کرتے رہتے ہیں ۔
ایسے صحافی بھی موجود ہیں زیادہ ہیں جنہوں نے اپنے ذمہ یا دوسرے لفظوں میں کچھ محکموں کا ٹھیکہ لے رکھا ہے، محکمہ بلڈنگ، تھانوں, بجلی , گیس و کھالوں اورنالیوں کی کوریج و نبض شناسی شہر میں گٹر اوبل رہے ہیں متعلقہ محکمہ سے زیادہ ان صحافیوں سے بہتر کوئی نہیں جانتا
کچھ صحافی انکی کارکردگی کو سراہتے ہیں تو کوئی انکی کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت پیش کررہے ہوتے ہیں کسی نے دبنگ تو کسی نے کرپٹ لکھا ہوتا ہے ۔اگر آپ کو کوئی مسئلہ یا کام ہوتو صحافی ڈھونڈنے کی یا کہیں دور جانے کی بالکل ضرورت نہیں یہ ڈیرہ غازی خان کے ہر گلی محلہ کالونیوں چوک چوراہوں میں صحافی با آسانی وافر تعداد میں آپکو میسر ہوں گے ۔
زیادہ تر بے چارے بےروزگار صحافی ہیں جن کی گزر بسر دوسروں کی جیبوں سے ہوتی ہے، صحافت میں کالی بھڑیں بھی موجود ہیں جوکہ انتہائی طاقتور ہیں غلط دھندوں کی وجہ سے صحافت کا معیار روز بروز گرتا ہی جارہا ہے،آدھے درجن کے قریب مختلف ناموں سے پریس کلب بھی بنے ہوئے ہیں جبکہ ڈیرہ غازی خان شہر میں صرف ایک رجسڑڈ پریس کلب ہے جسکی اپنی عمارت بھی ہے
باقی ماندہ پریس کلب چوباروں، دکانوں ،ہوٹلوں یاکسی کی بیٹھک میں بنے ہوئے ہیں۔ جہاں آدھے درجن ڈمی اخبارات یا ڈمی چینل کے نام نہاد صحافی اکٹھے ہوں وہاں پریس کلب بنا کر صدر بن بیٹھتے ہیں پھر فلاں زندہ باد… فلاں زندہ باد کے نعرے لگائے جاتے ہیں