شہباز اکمل جندران۔۔
باغی انویسٹی گیشن سیل۔۔۔

اسحاق ڈارسینٹ کے رکن ہیں یا نہیں آئین اور قانون بھی لاعلم نکلے۔

اسحاق ڈار سینیٹر ہیں یا نہیں اس حوالے سے ملک کا آئین اور ملکی قوانین بھی خاموش ہیں۔3مارچ2018کو اسحاق ڈار سینٹ کی سیٹ پر دوبارہ منتخب ہوئے۔لیکن ان کا انتخاب ان کی غیر موجودگی میں ہوا۔سینٹ الیکشن کے وقت وہ ملک سے باہر تھے۔اور نیب کو مطلوب تھے۔مئی 2018میں سپریم کورٹ نے اسحاق ڈار کو طلب کیا اور طلبی کے باوجود حاضر نہ ہونے پر اسحاق ڈار کی سینٹ کی ممبر شپ معطل کرنے کا حکم دیا۔

عدالت عظمیٰ کے حکم کی روشنی میں الیکشن کمیشن نے اسحاق ڈار کی سینیٹ کی ممبر شپ معطل کردی۔اور تب سے آج تک اسحاق ڈار کی سینیٹر شپ سوالیہ نشان کی زد میں ہے۔کیونکہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 64کی کلاز2کے تحت سینٹ کے اجلاس سے مسلسل 40روز تک غیر حاضر رہنے والے رکن پارلیمنٹ یا سینیٹر کی رکنیت ختم تصور کرتے ہوئے اس کی سیٹ خالی ہوجاتی ہے۔یہی نہیں بلکہ رولز آف پروسیجر اینڈ کنڈکٹ آف بزنس ان سینیٹ 2012کے رول 19کے تحت بھی40روز تک اجلاس سے مسلسل غیر حاضر رہنے والے سینیٹر کی رکنیت ختم ہو جاتی ہے۔


لیکن یہاں ابہام پیدا ہوتا ہے کیونکہ آئین پاکستان کا آرٹیکل 64(2)اور سینٹ رولز محض سینیٹرز کے لیے ہیں لیکن اسحاق ڈار نے تو تاحال بطور سینیٹر حلف ہی نہیں اٹھایا اور نہ ہی انہیں سینیٹر کہا جاسکتا ہے۔ایسے میں
آئین اور سینٹ کے رولز آف پروسیجر و بزنس اسحاق ڈار پر لاگو نہیں ہوتے۔


یوں جہاں الیکشن کمیشن نے حلف اٹھانے سے قبل ہی اسحاق ڈار کو معطل کرکے آئین اور قانون پر بھی سوالیہ نشان ثبت کردیا۔وہیں سپریم کورٹ کے حکم پر الیکشن کمیشن کی طرف سے معطلی اسحاق ڈار کے لیے ریلیف بن گئی۔
آئین اور قانون کے تحت سینٹ اجلاس سے 40روز تک غیر حاضر رہنے پر اسحاق ڈار کی ممبر شپ ختم ہوجاتی لیکن چونکہ ابھی تک انہوں نے حلف ہی نہیں لیا اس لیے ان کی سینٹ کی ممبر شپ ہے یا نہیں اس پر آئین اور قانون بھی خاموش ہیں۔اور عملی طورپرمعطل ہونے کے بعد اسحاق ڈار کی ممبر شپ کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے۔اور ان کے خلاف 40دن کی غیر حاضری غیر موثر ہوچکی ہے۔
لیکن دوسری طرف اسحاق ڈار کی عدم موجودگی سے جہاں ایک طرف پنجاب کی نمائندگی کم ہوگئی ہے۔وہیں سینٹ میں ن لیگ کی عدی قوت میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔

Shares: