پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پاکستان پیپلز پارٹی اور شہید ذوالفقار علی بھٹو کا ذکر اس حوالے سے ہمیشہ سنہری حروف میں کیا جائے گا کہ پی پی پی وہ پہلی سیاسی جماعت ہے جس نے انتخابات میں شاندار کامیابی حاصل ہونے کے بعد جب اپنی حکومت قائم کی تو یہ پہلی منتخب اور آئینی حکومت تھی جسے اپنے آئینی مدت اقتدار پوری کرنے کا موقع ملا اگر اس وقت کی 9 اپوزیشن جماعتیں حقیقت کا ادراک کرتے ہوئے بیرونی اشاروں پر تحریک چلانے سے گریز کرتیں تو معاملہ افہام وتفہیم سے حل ہوسکتاتھا اور جو عناصر ملک میںطویل ترین مارشل لاء نافذ کرنے کا بھی موقع نہ ملنا،
لیکن ! افسوسں کہ ایسا نہ ہو سکا اور اپوزیشن جماعتوں نے بھی حقیقت کا ادراک نہ کیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی آج بھی ملک کی مقبول ترین سیاسی قوت ہے۔ بھٹو شہید نے پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد ایوب حکومت کے معاہدہ تاشقند پر اختلافات کی وجہ سے علیحدہ ہونے کے بعدرکھی، وزیر خارجہ کی حیثیت سے انہوں نے قومی مفادات کا اس شاندار طریقے سے تحفظ کیا۔ عالمی اور علاقائی مسائل پر ایسی دوراندیشی اور سیاسی بصیرت کا ثبوت دیا کہ مختصر عرصے میں وہ ملک کے ایک نامور سیاستدان بن گئے اور انہیں عالمی شہرت بھی حاصل تھی۔
وہ عوامی مفادات کو ہمیشہ پیش نظر رکھتے اور ان کے جذبے نے انہیں صیح معنوں میں ایک عوامی رہنما بنادیا تھا، چنانچہ جب انہوں نے لاہور میں پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیادی رکھی اوراپنے منشور میں روٹی کپڑا اور مکان کو سرفہرست رکھا تو دیکھتے ہی دیکھتے تمام مخالف سیاسی جماعتوں کی مقبولیت اور اکثریت ختم ہوگئی اور پیپلز پارٹی ملک کی سب سے مقبول عوامی سیاسی جماعت کی حیثیت سے سامنے آئی، چنانچہ جنرل یحییٰ خان کے دور میں ہونے والے انتخابات میں پی پی پی نے زبردست اکثریت حاصل کی۔ لوگ یہ کہتے سنے گئے کہ اگر بھٹو کی بجلی کے کھمے کوبھی پارٹی کاٹکٹ دے دیں تو وہ بڑے سے بڑے سیاست دان کا تختہ الٹ سکتا ہے چنانچہ پیپلز پارٹی کے معمولی کارکنوں کے مقابلے میں کئی سیاسی اجاره دار بری طرح شکست سے دوچار ہوئے۔
یحییٰ خان کی غلطی کے نتیجہ میں سقوط مشرقی پاکستان کے بعد پیپلز پارٹی کو موجودہ پاکستان کا اقتدار سونپ دیا گیا اور بھٹو شہید وزیراعظم کے منصب پر فائز ہوئے۔ بھٹو شہید نے اقتدار سنبھالنے کے فورا بعد اپنے انتخابی منشورکوعملی جامہ پہنانا شروع کیا۔ انہوں نے غریب عوام کی مشکلات کا ازالہ کرنے کی پالیسی اختیار کی دولت کا ارتکاز اور چند ہاتھوں میں قومی وسائل کو جمع ہونےسے روکنے کے لیے انہوں نے بعض صنعتوں، بنکوں اور دوسرے اداروں کو قومی تحویل میں لے لیا۔ انہوں نے معیار تعلیم بلند کرنے اور اساتذہ کی محرومیوں کا خاتمہ کرنے کےتعلیمی اداروں کو بھی قومی ملکیت میں لینے کا اعلان کیا اس طرح ان اداروں میں جہاں ملازمت کے نئے مواقع پیدا ہوئے، بے روزگاری میں کمی آئی، وہاں دولت چند خاندانوں میں سمیٹنے سے بچ گئی اور معاشرے میں مساوات کے تصور و تقویت ملی قومیائی گئی صنعتوں میں ہزاروں افراد کو ملازمت فراہم کی گئی۔
بھٹو شہید کے اہم ترین کارتا سے قادیانیوں کو غیرمسلم اقلیت قرار دینا اور اسلامی جمہوری آئین کی تشکیل کھی، انکے اقتدار سنبھالنے سے پہلے پاکستان کی سرزمین بے آئین کا نام دیا جاتا تھا اورپچاس سال گزر جانے کے باوجود ملک کا آئین بھی تشکیل نہ پاسکاتھاجوکسی بھی لیحاظ سے قومی وقار مطابقت نہیں رکھتا تھا۔ بھٹو شہید نے قرارداد پاکستان کی روشنی میں اسلامی اور جمہوری آئین کی تشکیل کی اور یہ آئین قومی اسمبلی کے تمام ارکان کی طرف سے مکمل اتفاق رائے سے منظور کیا گیا ۔یہی وجہ ہے کہ آج ہر سیاسی جماعت حکومت سے یہ مطالبہ کرتی ہے کہ وہ 1973ء کا اسلامی اور جمہوری | آئین بحال کرے۔
بھٹو شہید نے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے کر ایک عظیم کارنامہ انجام دیا۔ انہوں نے ملک بھر کے غریب اور بے گھر خاندانوں کو سر چھپانے کے لیے جگہ دینے کا پروگرام شروع کیا اس طرح ملک کے لاکھوںبے گھر خاندان اپنے لیے مکان بنانے اور سر چھپانے میں کامیاب ہو گئے ۔ قومی اورملکی سلامتی اور دفاع کو مظبوط بنانے کے لیے انہوں نےایٹمی پروگرام کی بنیادی اس مقصد کے لیے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ہالینڈ سے پاکستان |سے پاکستان بلایا اور ہمیں اسی پروگرام کا انچارج مقرر کیا۔ امر واقعہ یہ ہے کہ یہ پروگرام بھٹو نے ہی شروع کیا اور اس کی تکمیل اور آج پاکستان کے ایٹمی قوت ہونے کا کریڈٹ بھی بانی کی حیثیت میں بھٹو شہید ہی کو جاتا ہے۔
ان کا دوسرا بڑا کارنامہ پاکستان سٹیل ملز کا قیام تھا یہ منصوبہ اس وقت روس کے صنعتی اداروں کے تعاون سے شروع کیا گیا جب پوری دنیا کمیونسٹ بلاک اور سرمایہ دار بلاک میں بٹی ہوئی تھی روس کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو خوشگوار بنانے اور روسی سفیر پر اعتماد کی فضا پیدا کرنے میں بھٹو شہید نے بنیادی کردار ادا کیا اس وقت کوئی بی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ کمیونسٹ بلاک کا سربراہ ملک پاکستان میں ایک اہم ترین دفاعی منصوبے میں فنی اور مالی تعاون فراہم کرسکتا ہے لیکن بھٹو شہید کی سیاسی بصیرت اور دوراندیشی نے یہ ممکن کر دکھایا۔ پاکستان کی تعمیرو ترقی اور خاص طور ایٹمی پروگرام بعض عالمی طاقتوں کی نگاہ میں کھٹک رہا تھا،
چنانچہ اس وقت کے امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر کے بھٹوشہیدکواس پروگرام کے حوالے سے نمونہ عبرت بنانے کی جو دھمکی دی تھی وہ ضیاء الحق کے ہاتھوں مارشل لاء کے نفاز اور بھٹوکو شہید کرنے کی صورت میں پوری ہوئی، لیکن بھٹو آج پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک سنہری باب ہے اورقوموں کے احسانات کبھی نہیں اتار سکے گی۔ آج ایک بار پھر ملک انتہائی مشکلات سے گزر رہا ہے، پی پی پی اپنی عوام کو کبھی اکیلا نہیں چھوڑے گی۔
ٓآئیں ٓاج ذولفقار علی بھٹو کی سالگرہ کے موقع پر عہد کریں کہ ہم چاروں صوبوں کی مضبوطی کے لیے آئین کی بالادستی کے لئے، اٹھارویں ترمیم کو بچانے کے لیے، قانون کی حکمرانی کے لیے، جمہوریت کی مکمل بہالی کے لئے، صاف اور شفاف انتخابات کے لئے، غریب کی غربت ختم کرنے کے لئے، بیروزگار کو روزگار دینے کے لئے، اداروں کے درمیان تصادم کو بچانے کے لئے، پارٹی قیادت اور کارکن اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے اور چئیرمین بلاول بھٹو زرداری اور آصف علی زرداری کے ہاتھ مضبوط کریں گے اور سیلیکٹد وزیراعظم کا بھرپور مقابلہ کریں گے ۔ پی پی پی کا ورکر، کارکن، لیڈر، چئیرمین بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں متحد ہیں۔ ہماری قیادت کے خلاف سیاسی بنیادوں پر بنائے گئے مقدمات کا ڈٹ کے مقابلہ کریں گے۔
کون بیرونی ایجنٹ :پیپلزپارٹی یا 9 اپوزیشن جماعتیں:قوم جان چکی:——چوہدری منور انجم