اسامہ بن لادن 10 مارچ 1957 کو سعودی عرب کے دارلحکومت ریاض میں پیدا ہوئے،اسامہ بن لادن کا مکمل نام اسامہ بن محمد بن عوض بن لادن۔ ۔ امریکہ کی دہشت گردوں کی فہرست میں ان کا نام شامل ہے۔ اسامہ بن لادن یکم مئی 2011 کو ایبٹ آباد میں مارا گیا .
اسامہ بن لادن کا تعلق سعودی عرب کے مشہور رئیس خاندان لادن فیملی سے تھا۔ اسامہ بن لادن محمد بن عوض بن لادن کے صاحبزادے ہیں جو شاہ فیصل کے خاص دوستوں میں شمار کئے جاتے تھے۔ لادن کا کاروبار پورے مشرق وسطیٰ میں پھیلا ہوا ہے۔ اسامہ کے بقول انکے والد نے امام مہدی علیہ اسلام کی مدد کے لیے کروڑوں ڈالر کا ایک فنڈ قائم کیا تھا۔ اور وہ ساری زندگی امام مہدی کا انتظام کرتے رہے۔ ایک انٹرویو میں اسامہ بن لادن نے اپنے والد کے بارے بتاتے ہوئے کہا کہ "شاہ فیصل دو ہی افراد کی موت پر روئے تھے، ان دو میں سے ایک میرے والد محمد بن لادن تھے اور دوسرے وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو تھے

اسامہ بن لادن نے اپتدائی تعلیم سعودی عرب سے ہی حاصل کی بعض ازاں انہوں نے ریاض کی کنگ عبد العزیز یونیورسٹی سے ایم بی اے کیا۔ اسامہ بن لادن کے بارے میں بعض مغربی صحافیوں کا ماننا ہے کہ انہوں نے لندن کی کسی یونیورسٹی سے انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی تھی، تاہم اسامہ بن لادن کے قریبی حلقے سے اس سوچ کی نفی ہوتی ہے
اسامہ بن لادن کے بارے میں کہا جا تا ہے کہ انہیں ہمیشہ سے مقدس اسلامی مقامات مسجد الحرام اور مسجد نبوی اور سے انتہائی عقیدت رہی ہے۔ ان کی تعمیراتی کمپنی نے شاہ فیصل اور شاہ فہد کے ادوار میں ان دونوں مقدس مقامات کی تعمیر کا کام کیا تھا۔ اسامہ بن لادن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے ذاتی طور پر اس منصوبے میں دلچسپی لی اور مختلف توسیعی منصوبے اپنی نگرانی میں مکمل کرائے۔
اسامہ کو مذہبی رجہان انکے والد محمد ان لادن سے وراثت میں ملا تھا۔ اسامہ بن لادن اور ان کا خاندان سعودیہ عرب کے عام لوگوں کی طرح امام احمد بن حمبل کے منہج سے متاثر اور شیخ محمد بن عبدالوہاب کے سلف صالحین کواصل اسلام سمجھتے تھے۔ شروع میں انہوں نے ایک عرب شہزادے کی سی زندگی گزاری مگر وقت کے ساتھ ھاتھ انکے اندر تبدیلیاں آئیں۔ 1979 میں افغانستان پر سوویت یونیں کی جارحیت کی خبر انہوں نے ریڈیو ہر سنی۔ ابتدا میں انہوں نے افغان مجاہدین کی مالی معاونت کی مگر کچھ عرصے بعد وہ خود اپنی تمام دولت اور اساسوں کی پرواہ کئے بغیر میدان کارزار میں اتر آئے۔ اسامہ بن لادن نے شیخ عبداللہ عظائم اور دیگر عرب مجاہدین کے ساتھ ملکر سوویت فوجیوں کے دانت کھٹے کر دئے
اسامہ بن لادن بڑی تعداد میں عرب مجاہدین کو پاکستان لایا، اور ان میں سے بیشتر پشاور میں قیام پذیر تھے۔ اسی دوران مصر کے حکمران حسنی مبارک نے اپنے ملک میں مذہبی انتہا پسند تنظیم الجہاد کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا تو وہاں سے بہت سے جہادی بھاگ کر پاکستان اور افغانستان میں جہاد کی غرض سے آ بسے اور ان میں سے ایمن الظواہری جو کہ الجہاد کا ایک سرکردہ رہنما تھا اسامہ بن لادن کے ساتھ آ ملا۔
ابتدا میں القاعدہ عرب مجاہدین کے ذریعے افغانستان میں جہاد کے لئے موجود رہی لیکن افغان مجاہدین ان کو ڈرپوک اور ناکارہ خیال کرتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ ان عرب مجاہدین کو بچانے کے چکر میں افغان مجاہدین کو اپنی زندگیوں کو بھی خطرے میں ڈالنا پڑتا ہے۔ یوں کہا جائے کہ افغان جہاد کے دوران یہ ایک غیر اہم سی تنظیم تھی جو مجاہدین کے لئے ایک مذاق سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی تھی تو بے جا نہ ہوگا۔
افغان جہاد ختم ہونے کے بعد ابتدا میں القاعدہ بڑی حد تک غیر متشدد تھی لیکن اس میں مصریوں کے شامل ہونے کے بعد آہستہ آہستہ اسامہ بن لادن عبداللہ عظام کے ہاتھوں سے نکل کر ایمن الظواہری کے نظریات سے متاثرہونے لگے۔
ان مصریوں نے ایک سازش کے ذریعے عبداللہ عظام کو بھی قتل کر دیا جس کے بعد ایمن الظواہری اور اس کی تنظیم الجہاد نے اسامہ بن لادن اور اس کی القاعدہ کو مکمل طور پر اپنے قابو میں کر لیا۔ تاہم، اس میں تمام تر پیسہ اسامہ بن لادن کا لگ رہا تھا اور اسامہ ہی وہ واحد شخص تھا جو مزید رقوم اس تنظیم کے لئے جمع کر سکتا تھا۔ لہٰذا ایمن الظواہری کے لئے اسامہ کی موجودگی لازم تھی۔
رفتہ رفتہ الجہاد نے القاعدہ کو بھی اپنے ایجنڈے کے تابع بنا لیا اور یہ تنظیم ایک دہشتگرد گروہ میں ڈھلنے لگی۔ 1990 میں عراق نے کویت پر قبضہ کیا تو سعودی عرب نے اپنا دفاع امریکہ کے حوالے کر دیا۔ دیگر انتہا پسند مولویوں کی طرح اسامہ کے لئے بھی یہ ناقابلِ قبول تھا۔ 1991 میں اسامہ سوڈان چلا گیا جہاں ایک so-called مذہبی انقلاب کے بعد ایک اسلامی ریاست قائم کرنے کا سلسلہ جاری تھا۔ اس نئی حکومت پر بے شمار اقتصادی پابندیاں تھیں لہٰذا انہوں نے اسامہ بن لادن کے پیسے کو خوب استعمال کیا۔ اس کے پیسے کو ملک کی معیشت کی بہتری کرنے کے لئے استعمال کیا اور بدلے میں اسامہ کو زرعی زمین لیز پر دی جاتی رہی۔
1992 میں القاعدہ نے مسلمان ممالک میں اپنے حملوں کی ابتدا کی جب یمن کے شہر عدن کے ایک ہوٹل میں ایک دھماکہ ہوا اور القاعدہ نے اس کی ذمہ داری قبول کی۔ اس ہوٹل میں کچھ امریکی فوجی ٹھہرے ہوئے تھے جو آگے صومالیہ میں امن مشن کے لئے جانے والے تھے۔ اس حملے میں کوئی امریکی فوجی نہیں مرا، البتہ دو آسٹریائی سیاح لقمہ اجل بن گئے۔
اس دھماکے کے بعد القاعدہ ایک متشدد تنظیم بن گئی۔ مثال کے طور پر 1993 میں موگادیشو میں 18 امریکی فوجیوں کو قتل کرنے والے صومالی باغیوں کو ٹریننگ القاعدہ نے ہی فراہم کی تھی۔ 1993 میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر ہونے والے حملے اور 1995 میں حسنی مبارک پر ہونے والے قاتلانہ حملوں میں بھی القاعدہ کے ملوث ہونے کے شواہد ملے تھے۔ 1995 ہی میں ریاض میں امریکی نیشنل گارڈ کے ٹریننگ سنٹر پر بم دھماکہ کیا گیا اور پھر 1996 میں ظہران میں واقع خوبار ٹاورز جہاں امریکی فوجی رہ رہے تھے کو تباہ کر دیا گیا۔
1996 میں سعودی اور امریکی دباؤ پر اسامہ بن لادن کو سوڈان سے نکال دیا گیا اور یہ افغانستان چلا گیا۔ لیکن القاعدہ کے حملوں میں شدت آتی گئی۔ 7 اگست 1998 کو بیک وقت القاعدہ نے دو ممالک میں امریکی ایمبیسیز پر حملے کیے۔ کینیا کے دارالحکومت نیروبی میں ہونے والے حملے میں 213 افراد ہلاک جب کہ 4500 سے زائد زخمی ہوئے۔ دوسری جانب تنزانیہ کے شہر دارالسلام میں ہونے والے حملے میں 11 ہلاک اور 85 زخمی ہوئے۔
القاعدہ نے ان دونوں حملوں کی ذمہ داری لی۔ اس کے بعد 12 اکتوبر 2000 کو یمن میں ایک امریکی جنگی جہاز سے ایک بارود سے لدی کشتی آ کر ٹکرائی جس سے 17 ہلاک اور 38 زخمی ہو گئے۔ اسامہ نے اس کی ذمہ داری بھی قبول کی۔
11 ستمبر 2001 کو اسامہ بن لادن نے افغانستان میں اپنے ساتھیوں کو کہا کہ ٹی وی چلا کر دیکھیں۔ کچھ ہی دیر میں حملوں کی اطلاعات آنے لگیں۔ جس دوران حملے کیے جا رہے تھے، اسامہ اپنی مٹھی سے ایک ایک کر کے انگلیاں کھولتا جا رہا تھا۔ پہلے جہاز کے ٹکرانے پر پہلی انگلی، دوسرے کے ٹکرانے پر دوسری انگلی، پھر پینٹا گون پر حملے کی خبر پر اس نے تیسری انگلی کھولی۔ وہ چوتھی انگلی کھولنے کے لئے بہت دیر تیار بیٹھا رہا لیکن اس کی یہ حسرت ناتمام ہی رہ گئی۔ چوتھا جہاز جو واشنگٹن ڈی سی کی طرف جا رہا تھا، اس میں موجود ہائی جیکرز پر مسافر غالب آ گئے اور یہ جہاز پنسلوینیا کے ایک کھیت میں جا گرا۔ان حملوں میں 2977 افراد ہلاک اور 25000 سے زائد زخمی ہوئے۔

اسامہ بن لادن کی والدہ امریکہ میں ہونےوالے اس حملے کو اسامہ سے منسوب کیے جانے کو مسترد کرتی ہیں۔ وہ ان سے بہت پیار کرتی تھیں اور ان پر الزام لگانے سے انکار کرتی ہیں۔ وہ ان لوگوں کو اس کا ذمہ دار سمجھتی ہیں جو اسامہ کے آس پاس تھے۔ وہ صرف ایک اچھے لڑکے کو جانتی ہیں جو ہم سب نے دیکھا، وہ کبھی ان کا جہادی رخ دیکھ ہی نہیں پائیں۔‘
القاعدہ تنظیم کے بانی اور سابق سربراہ اسامہ بن لادن کے اہل خانہ کی دوسری نسل میں اکثریت کو عربی زبان سے زیادہ اردو اور پشتو زبانیں بولنے پر زیادہ عبور حاصل ہے۔ یہ بچے روایتی افغان لباس کے عادی ہیں جب کہ اسامہ کی بیویوں نے روایتی سیاہ خلیجی برقعوں کو افغانی برقعوں سے تبدیل کر لیا۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اسامہ کے پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں میں کسی ایک جغرافیائی ٹھکانے کی شباہت ظاہر نہیں ہوتی۔ ان میں سنہرے بال اور نیلی آنکھوں والے بھی ہیں جب کہ دیگر بعض خلیجی خدوخال کے مالک ہیں۔

اسامہ نے اپنے بیٹے محمد کی شادی القاعدہ کے مصری شدت پسند رہ نما ابو حفص المصری کی بیٹی سے کی جب کہ اسامہ کے بیٹے سعد نے شادی کے لیے اپنے والد کے ایک سوڈانی ساتھی کی بیٹی کا انتخاب کیا۔ حمزہ بن لادن نے ابو محمد المصری کی بیٹی سے شادی کی جب کہ عثمان بن لادن نے تنظیم کے رہ نما سیف العدل کی بیٹی صفیہ کو اپنی دوسری بیوی بنانے کا فیصلہ کیا۔

جہاں تک اسامہ کی بیٹیوں کا تعلق ہے تو ایسا لگتا ہے کہ اسامہ نے خلیج کے عرف کا خیال رکھتے ہوئے کوشش کی کہ دامادوں کا انتخاب سعودی یا خلیجی مردوں میں سے ہی کیا جائے۔ قندھار میں قیام کے دوران 1999 میں اسامہ نے اپنی 12 سالہ بیٹی فاطمہ کی شادی سلیمان ابو غیث الکویتی سے کی۔ اسی طرح اپنی ایک دوسری 11 سالہ بیٹی خدیجہ کی شادی مدینہ منورہ سے تعلق رکھنے والے عبداللہ الحلبی سے کی۔ البتہ متعلقہ دستاویزات سے اسامہ کی بیٹیوں مريم، سميہ اور ایمان کی شادیوں کے بارے میں معلومات نہیں ملتی ہیں۔
ایبٹ آباد دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسامہ کا بیٹا خالد اپنے باپ کے ایک مقرب رہ نما "ابو عبد الرحمن” کی بیٹی سے شادی کا خواہش مند تھا تاہم سکیورٹی وجوہات کے سبب اس پر عمل نہیں ہو سکا اور 2011 میں ایبٹ آباد آپریشن میں جاں بحق ہو گیا۔








