فساد کا ذمہ دار کون؟ مسلم یا غیر مسلم؟

فساد کا ذمہ دار کون؟ مسلم یا غیر مسلم؟
تحریر:ڈاکٹرغلام مصطفی بڈانی
دنیا میں فساد اور بدامنی کا مسئلہ ایک عالمی حقیقت ہے، جس کے بارے میں مختلف نظریات اور خیالات پیش کیے جاتے ہیں۔ مغربی میڈیا اور کچھ مخصوص حلقے بار بار یہ بیانیہ دہراتے ہیں کہ دہشت گردی اور جرائم کے زیادہ تر واقعات میں مسلمان ملوث ہوتے ہیں، لیکن جب ہم اعداد و شمار اور حقائق کا تفصیلی جائزہ لیتے ہیں تو یہ دعوی بے بنیاد ثابت ہوتا ہے۔ دنیا میں فساد اور دہشت گردی کے اصل عوامل کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم مختلف جرائم کے حوالے سے مستند اعداد و شمار کا تجزیہ کریں اور یہ جاننے کی کوشش کریں کہ دنیا میں بدامنی اور جرائم میں زیادہ تر کون لوگ ملوث ہیں۔

اگر ہم دنیا میں جسم فروشی، چوری، ڈکیتی، شراب نوشی، قتل، منشیات اسمگلنگ اور منظم جرائم کی فہرستوں کا مطالعہ کریں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ان جرائم میں ملوث افراد کی اکثریت غیر مسلموں پر مشتمل ہے۔ مختلف بین الاقوامی اداروں کی رپورٹوں کے مطابق دنیا کے وہ ممالک جہاں جسم فروشی سب سے زیادہ عام ہے، وہ زیادہ تر عیسائی یا دیگر غیر مسلم اکثریتی ممالک ہیں۔ اسی طرح، وہ ممالک جہاں چوری، ڈکیتی اور قتل کی شرح سب سے زیادہ ہے، ان میں بھی زیادہ تر غیر مسلم آبادی والے ممالک شامل ہیں۔ اگر ہم دنیا میں سرگرم خطرناک غنڈہ گرد گروہوں اور منشیات اسمگلنگ مافیاز کا تجزیہ کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ ان گروہوں کے زیادہ تر سرغنہ غیر مسلم ہیں۔ اس حقیقت کے باوجود مغربی میڈیا مسلمانوں کو دہشت گردی سے جوڑنے میں کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ مغربی میڈیا جان بوجھ کر مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز بیانیہ تشکیل دیتا ہے اور انہیں بنیاد پرست اور شدت پسند قرار دیتا ہے۔ جب کوئی غیر مسلم کسی دہشت گردانہ کارروائی میں ملوث پایا جائے تو اسے ذہنی مریض، نفسیاتی طور پر غیر مستحکم یا کسی ذاتی محرومی کا شکار فرد قرار دیا جاتا ہے، جبکہ اگر کوئی مسلمان کسی جرم میں ملوث ہو جائے تو فورا پوری مسلم کمیونٹی کو اس سے جوڑ دیا جاتا ہے اور اسلام کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ یہ دوہرا معیار صرف میڈیا تک محدود نہیں بلکہ عالمی سیاست اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی پالیسیوں میں بھی واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ مغربی ممالک میں مسلمانوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے امتیازی سلوک کی کئی مثالیں موجود ہیں جہاں مسلمانوں کو بلاوجہ مشتبہ قرار دے کر ان کے خلاف کارروائیاں کی جاتی ہیں، جبکہ غیر مسلم مجرموں کے جرائم کو زیادہ تر نظر انداز کیا جاتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو مکمل طور پر امن، بھائی چارے اور عدل و انصاف کی تعلیم دیتا ہے۔ اسلامی تعلیمات میں کسی بھی قسم کے تشدد، قتل و غارت اور معاشرتی بگاڑ کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے۔ قرآن اور حدیث میں واضح ہدایات موجود ہیں کہ کسی بے گناہ کا قتل پوری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے۔ اس کے باوجود اگر کچھ افراد جو مسلمان کہلاتے ہیں، جرائم میں ملوث پائے جاتے ہیں تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ پوری امت مسلمہ کو ان کے اعمال کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے۔ کسی بھی معاشرے میں کچھ افراد ایسے ضرور ہوتے ہیں جو قانون شکنی کرتے ہیں، لیکن کسی مخصوص قوم یا مذہب کو جرائم سے جوڑنا سراسر تعصب اور غیر منطقی رویہ ہے۔

ہمیں اپنی شناخت اور اسلامی اقدار پر فخر کرنا چاہیے اور دنیا کو یہ باور کرانا چاہیے کہ اسلام واقعی امن و سلامتی کا دین ہے۔اسلام امن، بھائی چارے اور عدل و انصاف کی تعلیم دیتا ہے۔ اسلامی تعلیمات میں کسی بھی قسم کے تشدد، قتل و غارت اور معاشرتی بگاڑ کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے۔ اگر کچھ مسلمان جرائم میں ملوث پائے جاتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ پوری امت مسلمہ کو ان کے اعمال کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے۔ ہمیں چاہیے کہ مغربی میڈیا کے پروپیگنڈے کا مقابلہ کریں اور دنیا کے سامنے اسلام کا اصل پیغام پیش کریں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم تحقیق اور مستند معلومات کو فروغ دیں اور اپنے نوجوانوں کو تعلیم اور شعور سے آراستہ کریں۔ دنیا میں فساد پھیلانے والے کسی ایک مذہب یا قوم سے تعلق نہیں رکھتے، بلکہ جرائم میں ملوث افراد ہر مذہب اور قوم میں پائے جاتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ تعصب اور نفرت سے بالاتر ہو کر حقائق کا جائزہ لیں اور دنیا کو امن اور سلامتی کا گہوارہ بنانے کے لیے مل کر کام کریں۔

Comments are closed.