وہ عشق جو ہم سےروٹھ گیا اب اس کا حال بتائیں کیا
کوئی مہر نہیں کوئی قہر نہیں پھر سچا شعر سنائیں کیا
اطہر نفیس
اردو کے نامور شاعر کنور اطہر علی خان المعروف اطہر نفیس 22 فروری 1933ء کو جگنیر،ضلع آگرہ، برطانوی ہندستان میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم مسلم یونیورسٹی اسکول علی گڑھ سے حاصل کی۔ 1949ء میں اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ پاکستان منتقل ہوگئے اور کراچی میں سکو نت اختیار کی۔ 1953ء میں روزنامہ جنگ سے وابستہ ہوگئے۔
ادبی خدمات
۔۔۔۔۔۔۔
اطہر نفیس نے غزل گوئی کو اپنے اظہار سخن کا ذریعہ بنایا اور اسے ایک اعتبار عطا کیا۔ وہ میر کے مکتبِ فکر سے تعلق رکھتے تھے۔ انھوں نے غزل کو ایک دھیما اور نرم لہجہ عطا کیا جو ان کی پہچان بن گئی۔ اردو غزل میں شیریں بیانی اور جدید طرزِ اسلوب ان کا طرئہ امتیازتھا۔ ان کی شاعری زندگی کی سچی کیفیتوں سے عبارت ہے۔ ان کی شاعری میں تضاد نہیں ملتا۔ ان کی شاعری حقیقی زندگی کا آئینہ دار ہے۔ اطہر نفیس کا پہلا شعری مجموعہ کلام کے عنوان سے احمد ندیم قاسمی نے لاہور سے شائع کیا اور دوسرا مجموعۂ کلام وہ صورت گر کچھ خوابوں کے ابھی تشنۂ طباعت ہے۔
وفات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اطہر نفیس 21 نومبر 1980ء کو کراچی، پاکستان میں وفات پاگئے اور وہ کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔ ان کی لوح مزار پر انھی کا شعر تحریر ہے:
وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا، اب اس کا حال بتائیں کیا
کوئی مہر نہیں، کوئی قہر نہیں، پھر سچا شعر سنائیں کیا
متفرق اشعار
۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے عشق میں رسوا ہوئے تم
مگر ہم تو تماشا ہو گئے ہیں
دروازہ کھلا ہے کہ کوئی لوٹ نہ جائے
اور اس کے لیے جو کبھی آیا نہ گیا ہو
اے مجھ کو فریب دینے والے
میں تجھ پہ یقین کر چکا ہوں
بہت چھوٹے ہیں مجھ سے میرے دشمن
جو میرا دوست ہے مجھ سے بڑا ہے
کبھی سایہ ہے کبھی دھوپ مقدر میرا
ہوتا رہتا ہے یوں ہی قرض برابر میرا
یہ دھوپ تو ہر رخ سے پریشاں کرے گی
کیوں ڈھونڈ رہے ہو کسی دیوار کا سایہ
اک شکل ہمیں پھر بھائی ہے اک صورت دل میں سمائی ہے
ہم آج بہت سرشار سہی پر اگلا موڑ جدائی ہے
اطہرؔ تم نے عشق کیا کچھ تم بھی کہو کیا حال ہوا
کوئی نیا احساس ملا یا سب جیسا احوال ہوا
اتنے دن کے بعد تو آیا ہے آج
سوچتا ہوں کس طرح تجھ سے ملوں
لمحوں کے عذاب سہ رہا ہوں
میں اپنے وجود کی سزا ہوں
خوابوں کے افق پر ترا چہرہ ہو ہمیشہ
اور میں اسی چہرے سے نئے خواب سجاؤں
جی نہ سکوں میں جس کے بغیر
اکثر یاد نہ آیا وہ
اک آگ غم تنہائی کی جو سارے بدن میں پھیل گئی
جب جسم ہی سارا جلتا ہو پھر دامن دل کو بچائیں کیا
با وفا تھا تو مجھے پوچھنے والے بھی نہ تھے
بے وفا ہوں تو ہوا نام بھی گھر گھر میرا
کسی نا خواندہ بوڑھے کی طرح خط اس کا پڑھتا ہوں
کہ سو سو بار اک اک لفظ سے انگلی گزرتی ہے
اس نے مری نگاہ کے سارے سخن سمجھ لیے
پھر بھی مری نگاہ میں ایک سوال ہے نیا
میں تیرے قریب آتے آتے
کچھ اور بھی دور ہو گیا ہوں
وہ دور قریب آ رہا ہے
جب داد ہنر نہ مل سکے گی