ماہرین نفسیات کے مطابق وہ رویے جو طلاق کروا دیتے ہیں
شادی محبت، ارادوں اور سہاروں سے تقویت پاتا ہے لیکن ان سب سے نظراندازی رشتے کو کمزور کردیتی ہے،شوہر اور بیوی کے درمیان تعلقات کو پروان چڑھانے کی ضرورت ہوتی ہے اور جب وہ نہیں ہوتا تو نتیجہ تباہ کن ہو سکتا ہے۔
باغی ٹی و ی: ایوولوشنری سائکولوجی میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں شادی شدہ جوڑے کے رویوں کا جائزہ لیا گیا ہے جن میں ایسے بنیادی رویوں کی نشاندہی کی گئی ہے جو جوڑے کو طلاق کی طرف لے جا سکتے ہیں۔
مطالعہ میں شامل اکثر شرکا نے اطلاع دی کہ تعلقات میں سب سے زیادہ نقصان دہ رویہ دیکھ بھال کی کمی ہے اس میں غفلت، لاتعلقی اور جذباتی طور پر سطح پر قطع تعلق ہونا شامل ہے۔
مطالعے میں کہا گیا کہایک اور شدید نقصان دہ رویہ جب کوئی زوج اپنے بچوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتا یا بحیثیت والدین اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں ناکام رہتا ہے۔
علاوہ ازیں دوسرے ساتھی کے رویے کو کنٹرول کرنا یعنی اپنی مرضی دوسرے پر مسلط کرنا، اس کی آزادی کو محدود کرنا بھی شادی میں زہر گھول دیتا ہے اور نتیجہ طلاق کی صورت میں نکلتا ہے۔
دوسری جانب امریکہ کے ایک ماہر نفسیات ہاورڈ مارک مَین نے لندن کی ایک کانفرنس میں دعویٰ کیا تھا کہ وہ شادی سے پہلے ہی ہونے والی بیوی کی بات چیت سن کر اور ان کے حالات دیکھ کر اندازہ لگا لیتے ہیں کہ شادی نبھانے والی باتیں ان میں پائی جاتی ہیں یا نہیں وہ کہتے ہیں وہ کئی سال سے یہ کام کر رہیں اور اب تک سینکڑوں جوڑوں کے متعلق اندازے لگا کر انہیں بتا چکے ہیں اور ان کے ۹۰ فیصد اندازے درست نکلے ہیں۔
وہ کہتے ہیں طلاق کی بڑی وجہ بات چیت اور تعلقات کا یکسر ختم کر دینا ہوتا ہے(Communication Breakdown)۔ اگر تعلقات جلد بازی اور غصہ میں یکدم توڑے نہ جائیں اور تعلقات بگڑنے کے بعد بھی بول چال جاری رکھیں اور کچھ عرصہ اکٹھے رہتے رہیں تو طلاق ہوتے ہوتے بھی بچ جاتی ہے جب و ہ ایک دوسرے کے نقطہ نظر سمجھنے سے انکار کردیتے ہیں ، اپنی ضد پر اڑ جاتے ہیں اور ایک دوسرے کی بات سننے کے روادار نہیں رہتے تو اس کا نتیجہ طلاق ہوتا ہے۔
ان کے مطابق دوسری وجہ طلاق کے باہمی احترام کا فقدان ہوتاہے۔ وہ ایک دوسرے کے کردار پرحملہ کرتے ہیں اورہتک آمیز رویہ اختیار کرتے ہیں ۔ ایک فریق دوسرے کو مسلسل نیچا دکھانے اورذلیل کرنے کے درپے رہتاہے اگر ایک نے دوسرے کے ہاتھ سے بیس میٹھی کاشیں کھائی ہوں اور ایک کڑوی آ جائے تو پچھلی بیس کویکسر بھلا کرایک کڑوی کو باربار دہراتا رہے گا اورہمدردی حاصل کرنے کے لئے گھر کے باہر کے افراد کوبھی بتانا شروع کر دے گا یاکر دے گی، ایسے لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں کو انا کامسئلہ بناکر ڈٹ جاتے ہیں اور ان کے والدین بھی اسے اپنی عزت کا مسئلہ بنا کر صورت حال کو مزید گھمبیر بنا دیتے ہیں۔