22 مارچ دنیا بھر میں ہر سال پانی کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ پانی جو حیات و نظام حیات کی بنیاد اور بقا ہے،اس وقت دنیا کا ایک سب سے بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔
کرہ ارض پر اگرچہ کہنے لکھنے کو ٪76 پانی اور ٪24 خشکی ہے لیکن اس میں سے پینے اور استعمال کے قابل پانی بمشکل ٪3 اور باقی ماندہ سمندروں کا ناقابل استعمال کھارا زہریلا پانی ہے۔
دنیا میں انسانی ترقی سے جیسے جیسے ماحول میں حرارت بڑھ رہی ہے ویسے ویسے پانی کی بھی تیزی سے کمی جاری ہے اور قدرتی آبی ذرائع تیزی سے خشک ہو کر سمٹ رہے اور باقی ماندہ پانی زہریلے ہورہےہیں۔
پاکستان اس وقت دنیا میں پانی کی کمی والے ملکوں میں تیسرے نمبر پر آچکا ہے جہاں قدرتی ذرائع آب دریا،چشمے اور آبشاریں وغیرہ تیزی سے خشک ہو رہے ہیں۔ اس وجہ سے زیر زمین پانی کا استعمال ہر روز تیز ہورہاتو یوں اس زیر زمین پانی کی سطح بھی تیزی سے گر رہی ہے۔
تاریخ شاہد ہے کہ قیام پاکستان کے ساتھ ہی ہمارا بھارت کے ساتھ ایک بڑا تنازع دریائی پانی کی بندش تھا جس نے تقسیم کے چند ہی ہفتے بعد دریا روک لیے تھے، بھارت کو پاکستان پر یہ آبی سبقت یوں ملی کہ پاکستانی دریاؤں کے ہیڈ ورکس مطلب ان کی چابیاں بھارت کے حوالے کرکے اسے اپاہج بنا دیا گیا تھا۔ یوں چاروناچار پاکستان 10سال تک بھارت سے پانی خریدتا رہا تاآنکہ1960 میں جنرل ایوب خان نے بھارتی وزیر اعظم کے ساتھ کراچی میں سندھ طاس معاہدہ کیا۔یوں بھارت سے پاکستان کی طرف آنے والے 6 میں سے 3 دریا راوی،بیاس اور ستلج بھارت کو ملے تو اس نے انہیں مکمل ہی بند کر دیا جب کہ باقی ماندہ تین دریا سندھ،جہلم اور چناب پاکستان کے حصے میں آئے لیکن ان سے بھی بھارت کو (بظاہر پانی روکے بغیر) زراعت و بجلی کی پیداوار وغیرہ کے لئے یہ پانی بھی استعمال کرنےکی اجازت دے دی گئی ۔ تمام ماہرین اس اس سندھ طاس معاہدہ کو اسی وجہ سے پاکستانی دریاؤں کی فروخت قرار دیتے ہیں جس نے پاکستان کے ہاتھ پاؤں مستقل ہی باندھ دئیے تھے۔
اس معاہدے کا گارنٹر عالمی بینک تھا جب کہ معاہدے کے بدلے دس ملکی کنسورشیم نے پاکستان کو 1ارب 84 کروڑ ڈالر مہیا کرنے کا اعلان کیا جس سے پاکستان نے دو بڑے ڈیم تربیلا اور منگلا تعمیر کرنے اور وہاں سے نہریں نکال کر اپنے دیگر تین خشک دریاؤں میں پانی ڈالنا تھا ۔اس معاہدے سے ہم تین دریاؤں سے پکے پکے محروم ہوئے تو آج باقی ماندہ تینوں دریا بھی بھارتی رحم و کرم پر ہیں جہاں بڑے پیمانے پر ڈیم نہریں اور سرنگیں بنا بنا کر پانی روکا اور اس کا رخ بھی موڑا جا رہا ہے۔
کمال حیرت کی بات یہ ہے کہ سندھ طاس معاہدے پر بھی بھارت نے اول دن سے عمل درآمد نہیں اور عالمی بینک سارے قضیے سے لاتعلق ہے البتہ پاکستان کے ساتھ بھارت کے آبی مذاکراتی شغل تماشے تب سے اب تک جاری ہیں۔
اسی سلسلے کی ایک کڑی کے طور پر حالیہ مارچ کے پہلے عشرے میں بھارت کا ایک دس رکنی وفد پاکستان آکر تین دن ہمارا مفت میں وقت اور سرمایہ ضائع کرکے اور اپنی ہٹ دھرمی دکھا کر واپس جا چکا ہے۔۔۔۔۔
ہمارے دریاؤں میں پانی کی مسلسل کمی سے ہمارے سمندر میں میٹھا پانی کم جا رہا تو سمندر ہمارے ساحلی علاقے تیزی سے اپنی لپیٹ میں لے کر ہڑپ رہا ہے، زرعی علاقے اجڑ رہے اور حال تک گندم برآمد کرنے والا ملک اناج منگوانے پر مجبور ہے۔
پانی کاعالمی دن ہمیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور تو کررہا ہے لیکن کون سوچے کون کچھ کرے؟ اور اگر کچھ کرنا ہے تو وہ ک ش میر کی آزادی ہے جو ہمارے پانیوں کو منبع اور اسی وجہ سے شہ رگ ہے۔