پاکستان کا شمار ترقی پذیر ممالک میں ہوتا ہے۔۔یہ ایسا ملک ہے جو قدرتی وسائل سے ماال مال ہے۔۔لیکن اس کے پاس خوش”،
قسمتی سے انسانی وسائل کی بھی کمی نہیں ۔پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جس کی زیادہ تر آبادی نوجوان نسل پر مشتمل
ہے۔۔نوجوان کسی بھی قوم کا عظیم ترین سرمایہ ہوتے ہیں”۔۔
جن کو اگر بہترین سہولیات ،بہترین تربیت فراہم کی جائے ،تو ہی یہ سرمایہ ملک و قوم کے لیے صحیح معنوں میں بہتر ثابت ہو”
سکتا ہے۔۔بدقسمتی سے ہم اس مقام پر کھڑے ہیں !جہاں ہمارے تعلیم یافتہ بچے اپنی ڈگریوں کو صرف حاصل کر سکتے ہیں ان
ی تعلیم تو حاصل کر لیتے ہیں لیکن ان کی یہ تعلیم صرف ایک کاغذ کا ٹکڑا بن جاتی
ڈگریوں کو استعمال میں نہیں ال سکتے ۔۔وہ اعل
ہے”۔۔
کبھی معاشرا انہیں یہ حق نہیں دیتا کہ وہ اپنا علم،اپنا تجربہ اپنے لوگوں کے لیے استعمال کر سکیں،کبھی حکومت ان کی راہ کی”
بڑی رکاوٹ بنتی ہیں”۔۔
اس وقت پاکستان میں الکھوں بچے اپنی ڈگریاں ہاتھوں میں اٹھائے ،خود کو منوانے کے کیے تیار بیٹھے ہیں لیکن ان کو وہ مواقع”
نہیں مل رہے جو ان کے لیے علم کی راہ کھول دیں ۔۔وہ اپنا علم،اپنے تجربات سے ملک کو فائدہ پہنچا سکیں”۔۔
جیسے جیسے لوگوں کی ڈگریوں کی تعڈاد بڑھتی ہے ۔۔ڈپریشن بھی لوگوں پر حاوی ہونے لگتا ہے "۔۔ "کیونکہ جب علم کو عمل میں”
نہ الیا جائے تو وہ بوجھ بن جاتا ہے "۔۔
اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے سب سے پہلے حکومت کو چاہیئے وہ ایسی حکمت عملی اپنائے کہ بچوں کو تعلیم کے ساتھ ساتھ”
ہنر بھی سکھایا جائے ایسا ہنر جو ان کی دلچسپی سے متعلق ہو جس سے نہ صرف ان کے علم میں اضافہ ہو بلکہ وہ اپنے علم کو
تجربات میں ڈھال سکیں۔۔صرف ڈگریوں میں اضافے سے قوم ترقی نہیں کرتی ،سوچ بدلنی پڑتی ہے،علم کے خزانے کو تجربات میں
پگھالنے سے ہی انسان کندن بنتا ہے اور ترقی کی راہیں ہموار ہوتی ہیں "۔۔۔
اس وقت سب سے بڑی ضرورت سوچ بدلنے کی ہے۔۔ہمیں آنے والی نسلوں کے لیے کچھ سوچنا ہے ،کچھ ایسا منصوبہ جو انھیں”
نکھار کر سونا بنا دے۔۔حکومت قرضے فراہم کر رہی ہے لیکن یہ کافی نہیں ۔میرے خیال میں کالجز ،یونیورسٹیز میں بچوں کے لیے
وقتا فوقتا ایسے سیمینار منعقد کرنا وقت کی ضرورت ہے جس کے تحت انھیں کاروبار کرنے کی طرف مائل کی جائے ان کے اندر
کچھ نیا دریافت کرنے کی جستجو پیدا کی جائے۔۔۔وہ تالش کریں اپنی منزل کو،ان میں کچھ منفرد پیدا کرنے کا جذبہ بیدار کرنا
چاہیئے "۔۔۔
نہ کہ وہ اپنی ڈگریاں لے کر کسی موقع کی تالش میں گھر بیٹھ جائیں بلکہ انھیں خود موقع پیدا کرنے کی تربیت دی جائے۔انھیں یہ”
سکھانا ہے کہ وہ اپنے علم پر چلتے ہوئے منزل تک کیسے پہنچ سکتے ہیں ،خود کو کیسے منوا سکتے ہیں”۔۔۔
کہ اٹھو،جاگو،وسیع آسمان ،کھلی سر سبز و شاداب زمین مسخر ہونے کو بے تاب ہے ،جاؤ کچھ نیا تالش کرو ،اپنی جستجو سے”
اپنی لگن سے کھو جاؤ کچھ نیا تالش کرنے میں،وقت تمہارا منتظر ہے اور گھڑی کی آگے بڑھتی ہوئی سوئیاں تمہارے ہم قدم ہو کر،
تمہیں پہنچا دیں گی !اس منزل پر جہاں صرف مضبوط ارادہ اور قوی دل رکھنے والے پہنچ سکتے ہیں کہ علم کے دروازے بزدل
اور ڈگمگاتے قدم رکھنے والوں پر نہیں کھال کرتے۔اس دروازے کو کھولنے کے لیے تمہیں خود کو مضبوط بنا کر شفاف علم سیکھنا
ہے ۔۔یہی تمہاری کامیابی کی منزل ہے، جو تمہیں ضرور ایک نئے جہان میں پہنچا دے گی۔۔۔آگے بڑھو اور کچھ نیا کر جاؤ”

Shares: