ساتوں بیٹیوں کا کے باپ کو جب دوسری بار دل کا دورہ پڑا تو، فرسٹ ایڈ کے لئے اس کے پرس سے وہ گولی فوری نکال کر اس کی زبان تلے رکھی گئی تاکہ عارضی طور پر زندگی کی سانس کو بحال رکھا، لیکن گولی نے کوئ اثر نہ کیا، اور یوں لاتعداد بیٹیوں کی کفالت کرنے والا باپ ہمیشہ کے لئے اس جہاں سے چلتا بنا، بعد میں تحقیق ہوئ تو پتہ چلا کہ گولی نمبر دو تھی جس کا اثر ذرہ بھی نہ ہوا،
نمبر دو ادویات بنانے والی کمپنی کو اس کا بھی احساس نہیں رہا کہ کم از کم جان بچانے
والی گولی کو جعلی نہ بناتی،
اسی طرح معاشرے میں جعلی اور ملاوٹ سے بھری چیزوں کی مارکیٹ میں بھر مار ہے، جس چیز کو بھی پرکھیں ، وہ آپ کو نمبر دو اور غیر معیاری نظر آئے گی،
غیر معیاری کی پیشکش اتنی دلکش ہے معیاری شہ کو بھی مات دے،
ہم کسی چیز بھی دیکھ لیں وہ حفظان صحت کے اصولوں سے بہت پرے نظر آتی ہے، ہمارے گھروں میں روزانہ چائے بنتی ہے اور چائے چھوٹے بڑے کے حلق سے گزرتی ہے لیکن چائے جس دودھ سے تیار ہوتی ہے، اسے ٹی وائٹنر کہا جاتا، اور ٹی وائٹنر میں دودھ نام کی کوئ چیز تک نہیں بلکہ یہ اک لیکوئیڈ مادہ ہے جس سے چائے تیار کی جاتی ہے، اور اسی طرح چائے کی پتی کو دیکھ لیں جو اصلی چائے نہی ہے بلکہ کالے چنوں کے چھلکوں سے اور مساگ کی کڑواہٹ سے مارکیٹ میں لانچ کی جاتی اور سستے دام ہونے کی وجہ سے لوگ خرید کر چائے سے لطف اندوز ہوتے ہیں،
اسی طرح ہم چولہے پہ تیار ہونے والی دوسری چیزوں کی غیر معیاری چیزوں سے نہیں بچ رہے ہیں، اگر سبزیاں دیکھیں تو گٹر کے پانی سے پل بڑھ کر ہمارے معدہ کا حصہ بنتی ہیں،اور جس گھی سے تیار ہوتی ہیں وہ انتہائ غیر معیاری ہے جو کہ مردار جانوروں کی چکنائی سے تیار ہوتا ہے اور یوں عوام اک بار پھر سستے دام میں اپنی مہنگی صحت کی دھجیاں اڑاتے ہیں،
رہا مسلہ پانی کا، پانی کا بھی یہی مسلہ ہے، ہر دسواں آدمی ہیپاٹائٹس کا شکار ہے وجہ صرف آلودگی سے بھرا پانی ہے،
گورنمنٹ میٹرو بسیں ،اورنج ٹرین اور ہائ فائ روڈوں پر اربوں خرچ کرتی ہے لیکن عوامی صحت کی طرف توجہ نہیں کرتی، جس ملک کا وزیراعظم خود صحت مند ہو تو ظاہر ہے وہ دماغ کا ضرور کم ہو گا،
کیونکہ عقل انسان سے صحت چھین لیتی ہے،
ہم جس فیلڈ میں بھی غور کریں انسان انسان کی زندگی کو تباہ کئے جا رہا ہے، کوئ پوچھنے والا نہیں جس کے ہاتھ میں پیسہ وہیں حکمران ہے، پیسہ ہمیشہ قانون کو توڑ دیتا ہے، لوگ بیماریوں سے مر رہے ہیں ، ہسپتال مریضوں سے بھرے پڑے ہیں، صحت بگڑتی چلی جا رہی ہے،کوئ کسی کا پرسان اس لئے بھی نہیں کہ وہ خود مبتلاء صحت ہے،
اگر یہی صورت حال رہی تو پھر بیماریوں کا یہ گھمبیر مسلہ آپے سے باہر ہو جائے گا، اور ایسا نہ کہ پھر ریاست پہلے بھی ناکام ہے اور پھر مزید ناکامی پہ ناکامی دیکھے،
عوام الناس کو بھی گونگا بہرا نہیں ہونا چاہئے اللہ کریم نے کائنات کی سب سے اہم نعمت عقل کی دی ہے اس سے بھی فایدہ اٹھانا چاہئے اور غیر معیاری اور معیاری چیز کو پرکھے جہاں کھانے پینے کی چیزوں بارے میں غلط ہوا دیکھے تو روکے یا پھر ریاستی مدد کو کال بھی کر سکتا ہے، کیونکہ ہماری صحت سب سے پہلے ہے، اسی صحت کے ساز سے کائنات میں رنگینیاں ہیں، اگر صحت سلامت ہے تو غریبی میں بھی امیری ہے اور صحت نہیں تو امیری بھی غریبی ہے، ہم جو بھی کھا رہے ہیں پی رہے ہیں اپنے نصیب میں لکھا سمجھ کے کر رہے ہیں اور یوں سلسلہء حیات چلتے جا رہا ہے، حالانکہ نصیب بنانے والی خود پاکیزہ ہے پاکیزہ چیزوں کو پسند کرتا ہے،
اللہ ہم سب کو معیاری اور غیر معیاری چیزوں کی پرکھنے بارے آگاہی دے، اللہ ہم سب کی صحت سلامت رکھے، کیونکہ ہوائیں رنگ خوشبوئیں سب اسی کی مٹھی میں ہیں چاہے تو موسم پل میں بدل دے چاہے تو ہماری سیات حسنات میں بدل دے

Muhammad Asim Siddiq
۔ Twitter Handle : ‎@Asimsiddiq_
Email; asimsak47@gmail.com

Shares: