پاکستان تحریک انصاف نے ملک میں یکساں نصاب تعلیم رائج کرنے کا جو وعدہ
کیا تھا حالیہ دنوں میں پورا کر دکھایا۔ ہم نے دیکھا جب سے یکساں نصاب کی
بات ہوئی ساتھ ہی اس پر بہت زیادہ تنقید بھی کی گئی آخر ایسا کیوں ہے۔۔؟؟
ایک قوم اور ایک نصاب وقت کی ضرورت ہے وہ قومیں کبھی ترقی کر رہی نہیں
سکتیں جو طبقاتی نظام میں الجھی رہتی ہیں جہاں غریب کے بچے کی تعلیم کا
نظام الگ اور امیر کے بجے کا الگ اصل خرابی کی جڑ یہی ہمارا نظام تعلیم
ہے جو کہ تین حصوں میں بٹ کر رہ گیا ہے۔
پہلا پرائیویٹ اسکول بہترین انگریزی تعلیم دینے کے ساتھ منہ مانگی فیسیں
لیتے ہیں بے تحاشہ اخراجات جو کہ عام آدمی کی پہنچ سے دور ہوتے ہیں بلکہ
یوں کہہ لیں ان کے لئے ہے جو منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوتے ہیں۔
دوئم سرکاری اسکول جہاں ہمارا مڈل کلاس طبقہ تعلیم کے زیور سے آراستہ
ہوتا اور سوئم ہمارے مدارس جہاں غریب ترین طبقے کے بچے زیر تعلیم ہیں۔
سرکاری اسکولوں کی بات کریں تو یہاں اخراجات زیادہ نہیں پر سہولیات کا
فقدان ہے۔استادوں کی حاضری بھی نہ ہونے کے برابر،بوسیدہ عمارتیں اسٹاف کی
بات کریں وہ بھی آٹے میں نمک کے برابر۔ دیہاتی اور شہری سرکاری اسکولوں
کا حال کیا لکھوں ہمارے ہی گاؤں کی مثال لے لیں دیہات سے اٹھ کر جب بچے
شہر میں مزید تعلیم حاصل کرنے آتے ہیں تو نصاب کی وجہ سے بہت سی مشکلات
کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے بچے دل برداشتہ ہو جاتے ہیں احساس
کمتری کا شکار ہوتے ہیں اکثر تو تعلیم کو ہی خیر باد کر دیتے ہیں۔
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے بچے انگریزی کی طرف تو راغب ہو جاتے
ہیں مگر اپنی قومی زبان پڑھنے سے کتراتے ہیں پانچویں جماعت کے بچوں سے
اردو کی کتاب پڑھوا لیں وہ پڑھ ہی نہیں سکیں گے یہ ہی حال ڈگری یافتہ
نوجوانوں کا ہے ایک معیاری درخواست بھی اردو میں نہیں لکھ سکتے ہیں۔
تعلیم کا حصول ہمارے بچوں کے نزدیک ڈگری اور بس اچھی نوکری کی حد تک رہ
گیا ہے۔
یکساں نصاب نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے بچے بنیادی تعلیم حاصل کرنے میں بہت
پیچھے رہ جاتے ہیں جس کی وجہ سے میرٹ پر یونیورسٹی میں داخلہ اسکالرشپ سے
لے کر اچھی نوکری حاصل کرنے میں انہیں شدید دشواری کا سامنا کرنا پڑتا
ہے۔اور جب الیکشن کا وقت آتا ہے تو ہمارے سیاستدانوں کو نوجوان طبقے کے
حقوق کا خیال آتا ہے کوٹہ سسٹم متعارف کروا دیا جاتا ہے، جس کا نتیجہ کم
تعلیمی قابلیت کے حامل افراد قابلیت کے حامل افراد کے برابر آ کر کھڑے
ہوتے ہیں اور بڑے عہدوں حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جن سے اداروں
کا توازن بگڑتا ہے اور ان کی تباہی ہوتی ہے۔
ہمارے یہاں تعلیم جب سے کاروبار بنی ہے تب سے تعلیم کا معیار گر گیا
ہے وزیراعظم پاکستان عمران خان صاحب نے ایک تقریب میں کہا کہ،” میری
شروع ہی سے یہ سوچ تھی کہ پاکستان میں یکساں تعلیمی نظام ہو میں جب اس پر
بات کرتا تھا لوگ مجھے کہتے یہ تو ناممکن ہے یہ ہو ہی نہیں سکتا اسکی وجہ
اقتدار میں بیٹھے لوگ جنھوں نے فیصلے کرنے تھے انکے بچے اعلئ تعلیمی
اداروں میں انگریزی میڈیم میں پڑھتے تھے آگے انکے لئے نوکریوں کے انبار
تھے انکا کہنا تھا کہ آپ دنیا کے کسی بھی ملک میں چلے جائیں وہاں ایک
کریکولم ہوتا ہے اور ہمارے ملک میں تین الگ الگ قسم کے کریکولم جس کی
وجہ سے سب کے سوچنے کا انداز مختلف ان کا کلچر مختلف یعنی کے ہمارے ملک
کے اندر ہی تین مختلف قسم کی قومیں بن رہی تھیں میرا یہ ویژن تھا جب بھی
مجھے موقع ملا میں ملک میں ایک کریکولم لے کر آؤں گا تاکہ ہم ایک قوم
بنیں ایک سوچ بنیں مجھے اندازہ تھا یہ کام بہت مشکل ہے کیوں کہ جب الیٹ
کلاس ایک سسٹم سے فائدہ اٹھاتی ہے تو پھر وہ کبھی اسکو تبدیل نہیں ہونے
دے سکتی اور یہ تبدیلی ہمارا پہلا قدم ہے”۔
ہماری قوم تبدیلی کی تو خواہشمند ہے مگر خود تبدیل ہونے کو تیار نہیں
وزیراعظم عمران خان صاحب نے جس بھی شعبے میں اصلاحات لانے کی کوشش کی
لوگوں نے اسے تسلیم کرنے سے ہی انکار کیا ہے وزیراعظم عمران خان صاحب نے
تعلیم کے نظام میں اصلاحات لانے کی کوشش کی تو انگریزی میڈیم والوں نے
رونا دھونا ڈال دیا اس موقع کا فائدہ اٹھانے میں ہمارے لبرل بریگیئڈ کہاں
پیچھے رہنے تھے یہ لنڈے کے لبرل ہمیشہ ہر مثبت اور انقلابی قدم کی نہایت
ڈھٹائی سے مخالفت کرتے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جو پاکستان کو ترقی کرتا
نہیں دیکھ سکتے۔ یہ ہی حال سندھ حکومت کا ہے اٹھارویں ترمیم کی وجہ سے
حکومت کے ہاتھ بندھے ہوۓ ہیں۔
اس وقت صوبہ سندھ کے علاؤہ حکومت نے ملک بھر میں یکساں نصاب تعلیم رائج
کر دیا ہے پہلے مرحلے پر پرائمری تک یکساں نصاب تعلیم ہوگا ، اس کے بعد
اگلے مراحل طے ہوں گے۔ تمام سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں میں اب ایک
جیسی نصابی کتب پڑھائی جائیں گی۔ یہ ایک انتہائی اہم اقدام ہے بس اب
عملدرآمد کے ساتھ اس کے سامنے رکاوٹیں ڈالنے والوں سے بہتر انداز میں
نمٹنے کی ضرورت ہے انشاء اللہ اس اقدام سے نظام تعلیم میں
بہتری کے ساتھ تمام بچوں کو آگے بڑھنے کے یکساں مواقع ملیں گے۔
اب دو نہیں ایک پاکستان
شکریہ وزیراعظم عمران خان صاحب۔
ٹویٹر اکاؤنٹ
@Nomysahir