یکساں نصاب تعلیم، اہمیت، مسائل اور حل
محمد نعیم شہزاد
ملک پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے ہر طرح کے قدرتی وسائل سے تو مالا مال کیا ہی ہے ساتھ میں ایسے مفکر اور فلاسفر بھی عطا کر دیے ہیں کہ جو ہر معاملے میں ٹانگ اڑانے کو اپنا بنیادی حق تصور کرتے ہیں اور اپنی ہی رائے کو حتمی اور قابل عمل سمجھتے ہوئے ہر دوسرے شخص کی رائے کو بلا سوچے سمجھے مسترد کر دیتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی معاملہ پی ٹی آئی حکومت کے ویژن کے مطابق یکساں نصاب تعلیم کے مسئلے پر بھی ہوا۔ ویسے اگر حکومت اس مسئلہ پر بحث و مباحثہ کرنے کے لیے پبلک کال دے دے اور بحث میں شامل ہونے کے لیے پی پی ایس سی طرز کا ایک ٹیسٹ پاس کرنے کی شرط لازمی کر دے اور ٹیسٹ میں ناکام ہونے والوں کو بحث میں شمولیت سے محروم ہونے کے ساتھ بھاری جرمانہ ادا کرنا پڑے تو آج ہی ساری بحث ختم ہو جائے اور ہر طرف ہی اس پالیسی کے حامی نظر آنے لگیں۔
یہ تو رہی بات ان معترضین کی کہ جن کو اعتراض کرنے میں ثواب دارین نظر آتا ہے ۔ اب کچھ جائزہ لیتے ہیں کہ یکساں نصاب تعلیم کی اہمیت و ضرورت کیا ہے۔ پاکستان میں اس وقت تعلیم کو کئی کیٹیگریز میں منقسم کر دیا گیا ہے۔ مدارس کا الگ نظام ہے اور سکولنگ میں اپنے بہت سے متنوع نظام ہائے کار اور نصاب رائج ہیں۔ جس کے باعث طبقاتی تقسیم، عدم اعتماد اور عدم مساوات کی فضا قائم ہے۔ تقسیم در تقسیم کے باعث آج ایک سسٹم کے تحت کسی بھی لیول کی تعلیم مکمل کرنے والا طالب علم دوسرے سسٹم کے نصاب تعلیم سے ان دیکھے خوف کا شکار نظر آتا ہے اور محض کتاب کا ٹائٹل ہی دیکھ کر اندازہ لگا لیتا ہے کہ یہ کتاب چونکہ میں نے نہیں پڑھی لہٰذا میں اس کے مندرجات کو نہیں جانتا۔ ایک عرصے سے شعبہ تعلیم سے وابستہ رہنے اور مختلف سسٹمز کے نصاب تعلیم کو دیکھنے، طلباء سے ڈسکشن اور شئیرنگ کی صورت میں میرا ان مختلف سسٹمز کے تحت چلنے والے اداروں کے نصاب اور طریقہ تعلیم سے واسطہ رہا ہے۔ میرے مشاہدے کے مطابق ملک میں چلنے والے تمام سسٹمز میں چونکہ ایک ہی نصاب (Curriculum) کو مدنظر رکھتے ہوئے کتب شامل تدریس کی جاتی ہیں لہٰذا ان کے مندرجات میں کچھ فرق نہیں ہوتا۔ اس میں استثنائی صورت صرف بعض اداروں کی سائنس کی کتب کے حوالے سے ہو سکتی ہے مگر اکثریت اداروں میں ایک جیسا ہی content پڑھایا جاتا ہے۔ اس میں جو سب سے بڑا فرق دیکھا جا سکتا ہے وہ approach کا ہے۔ بہت سارے اداروں میں امتحان میں اچھے گریڈ لینے کو معیار بنا لیا گیا ہے اور طلباء کو صرف ایک ہی مقصد کے تحت تیار کیا جاتا ہے کہ امتحان میں زیادہ سے زیادہ نمبر کس طرح حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ بدقسمتی سے ایسے اداروں سے فارغ ہونے والے طلباء اچھے نمبر لے کر کامیاب تو ہو جاتے ہیں مگر علمی استعداد نا ہونے کے باعث مستقبل میں ناکام ہوتے ہیں۔ جبکہ بڑے پرائیویٹ اداروں کی بات کی جائے تو ان کی اپروچ based concept اور زیادہ practical ہے۔ جس کی وجہ سے طلباء کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے مگر ہماری قوم کا المیہ ہے کہ اسے achievement کا جنون کسی طرف سکون نہیں لینے دیتا۔ لہذا بڑی تعداد میں ان اداروں کے طلباء کے والدین انھیں گریڈز اور نمبروں کے چکر میں لے آتے ہیں اور ہمارے طلباء رٹا بازی کا سہارا لے کر بین الاقوامی تعلیمی نظام میں بھی نمبروں کے اعتبار سے آگے بڑھ جاتے ہیں مگر اپنی صلاحیتوں کو زنگ آلود بنا لیتے ہیں۔
تعلیم ہمارے لیے ایک اہم مسئلہ ہے۔ جیسا کہ بانئ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا :
’’تعلیم کے بغیر مکمل تاریکی تھی اور تعلیم سے روشنی ہے۔ تعلیم ہماری قوم کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔‘‘
ان سب حالات و واقعات میں یکساں نصاب تعلیم رائج کرنا بہت خوش آئند ہے اور امید افزا ہے۔ حکومت کو کسی قسم کا پریشر لیے بغیر اس پر عمل درآمد کرنا چاہیے مگر ساتھ ہی ایجوکیشنل اپروچ میں بھی تبدیلی لائیں تاکہ نمبروں اور گریڈز کی رسیا قوم تعلیم کو حقیقی معنوں میں سمجھ سکے اور اس سے کماحقہ مستفید بھی ہو۔ اس کے لیے نصاب کے ساتھ ساتھ اساتذہ کے لیے ہدایت نامے جاری کیے جائیں کہ کس سبق کو کس انداز سے پیش کیا جائے اور اس کے اہداف و مقاصد کیا ہوں گے اور ساتھ ہی ایک منصفانہ مانیٹرنگ سسٹم متعارف کرایا جائے جو طے کردہ پالیسی پر عملدرآمد کو یقینی بنائے۔ اگر حکومت یہ ہدف حاصل کرنے میں کامیاب رہتی ہے تو یقیناً یہ ایک بڑی کامیابی اور بانئ پاکستان کے خواب کی تکمیل کی طرف ایک بڑا قدم ہو گا۔