یومِ عاشور: وہ دن جب کربلا کی ریت لہو سے سیراب ہوئی
تحریر: سیدریاض حسین جاذب
کربلا کی وہ زمین، جہاں کبھی قافلوں نے پڑاؤ ڈالے ہوں گے، جہاں کبھی ہوائیں مہربان ہوں گی، دسویں محرم کی صبح ایک الم ناک سناٹے کے ساتھ طلوع ہوئی۔ سورج نے اپنی کرنیں نہیں بکھیریں بلکہ ایک مغموم اداسی کے ساتھ آسمان پر چمکا، جیسے جانتا ہو کہ آج انسانیت پر ایسا زخم لگنے والا ہے جو قیامت تک ہرا رہے گا۔ خیموں میں بےچینی، سکوت اور دعاؤں کا شور تھا۔ امام حسینؑ رات بھر سجدے میں گڑگڑاتے رہے، آنکھیں اشکبار، دل پر بار عظیم اور زبان پر بس ایک جملہ "یا رب ہمیں صبر دے۔”
علی اکبرؑ، قاسمؑ، عباسؑ، سب جان چکے تھے کہ آج جسم کٹے گا، سر جدا ہوں گے مگر حق کا پرچم جھکنے نہ پائے گا۔ بچوں کی سسکیاں، بیبیوں کی آہیں، اور بی بی زینبؑ کا بےتاب چہرہ فضا میں ایسا نوحہ بکھیر رہا تھا جو دلوں کے تار چیر دیتا تھا۔ مگر ان سب میں سب سے دل دہلا دینے والا منظر وہ تھا، جب امام حسینؑ نے اپنے معصوم، چھ ماہ کے لخت جگر علی اصغرؑ کو گود میں لیا۔ اس بچے کی آنکھیں خشک تھیں، ہونٹوں پر زخم، چہرے پر مٹی اور بدن پر کپکپاہٹ۔ امام نے دشمن کے لشکر کے سامنے آ کر نہ شمشیر اٹھائی، نہ کوئی خطبہ دیا، بس ہاتھ اٹھا کر علی اصغرؑ کو پیش کیا اور کہاکہ "اگر مجھے پیاسا رکھنا چاہتے ہو تو رکھو، مگر اس معصوم پر تو رحم کرو، اسے پانی دے دو۔”
مگر نہ دل پگھلے، نہ آنکھیں نم ہوئیں۔ حرملہ، یزیدی فوج کا ایک تیر انداز، تین شاخوں والا ایسا تیر چھوڑتا ہے جو سیدھا علی اصغرؑ کے نازک گلے کو چیر دیتا ہے۔ ایک لمحہ میں امام کے بازو میں تھرتھراتا بچہ خاموش ہو گیا۔ اس تیر نے صرف ایک گردن نہیں کاٹی بلکہ انسانیت، رحم، شفقت اور وفا کو بھی لہولہان کر دیا۔ امام حسینؑ کا دل چور چور ہو گیا، مگر زبان سے شکوہ نہ نکلا۔ انہوں نے ننھے شہید کا خون اپنے ہاتھوں میں لیا اور آسمان کی طرف اچھال دیا۔ روایات کہتی ہیں کہ زمین نے وہ خون قبول نہ کیا، آسمان نے تھام لیا کیونکہ یہ خون ایک معصوم کا نہیں، شہادت کا تاج پہنے ہوئے ایک عظیم پیغام کا تھا۔
پھر جب میدان خالی ہوا اور ایک ایک چراغ بجھ گیا، امام حسینؑ تنہا رہ گئے۔ جسم زخموں سے چور، پیاس سے نڈھال، دل زخمی، مگر نظریں بلند۔ انہوں نے خیموں کی طرف دیکھا، جہاں زینبؑ کا لرزتا وجود تھا، سکینہؑ کے آنسو، سجادؑ کی بےبسی اور ام کلثومؑ کی سسکیاں۔ امام نے وداعی کلمات ادا کیے، بچوں کو آخری بار گلے لگایا، بہن کو صبر کی تلقین کی اور میدانِ کربلا کی طرف روانہ ہو گئے۔ ان کے قدموں کے نیچے وہی ریت تھی جس پر ان کے یاروں کے لاشے پڑے تھے۔ دشمنوں نے چاروں طرف سے حملہ کیا، تلواریں، نیزے، تیر برسائے گئے، مگر امام حسینؑ کا سر نہ جھکا، ان کی زبان پر کلمہ جاری رہا۔ آخر کار جب سجدے میں گئے اور خدا کے حضور سر رکھا، شمر جیسے بدبخت نے ان کا سر تن سے جدا کر دیا۔
وہ سر، جسے رسول اللہؐ نے چوما تھا، آج نیزے پر بلند ہو چکا تھا۔ وہ سینہ، جس پر نبیؐ سوتے تھے، آج خاک پر روند دیا گیا۔ زمین خون سے بھر گئی، آسمان سیاہ ہو گیا اور مظلومیت نے اپنا پرچم کربلا کے میدان میں گاڑ دیا۔ مگر ظلم یہیں پر نہیں رکا۔ امام حسینؑ کی شہادت کے بعد خیموں پر حملہ ہوا۔ آگ کے شعلے بی بیوں کے پردوں سے ٹکرا گئے۔ سکینہؑ، رقیہؑ، ام کلثومؑ، سب جلتے خیموں سے نکل نکل کر دوڑنے لگیں۔ زینبؑ نے اپنے ہاتھوں سے بچوں کو سمیٹا، چادر کو سنبھالا اور خاک میں لپٹی عزت کو اٹھا کر اپنے ساتھ لے گئیں۔
وہ شام، جسے تاریخ نے "شامِ غریباں” کہا، وہ صرف اندھیرے کی نہیں تھی، وہ ایک قیامت کی رات تھی۔ بی بیوں کے سروں سے چادر چھین لی گئی، بچوں کو کوڑے مارے گئے، امام سجادؑ کو زنجیروں میں جکڑ دیا گیا۔ سکینہؑ بار بار پوچھتی کہ "میرا بابا کہاں ہے؟” مگر جواب میں صرف سسکیاں ملتیں۔ رقیہؑ جب قیدخانے میں بابا کے سر کو دیکھتی ہے تو اس سے لپٹ کر کہتی ہے، "بابا! مجھے کیوں چھوڑ گئے؟ میں آپ کے بغیر کیسے زندہ رہوں؟”
یہ منظر، یہ نوحہ، یہ قیامت آج بھی ہر دل کو لرزا دیتا ہے۔ عاشورہ ختم ہو چکا، مگر کربلا زندہ ہے۔ علی اصغرؑ کا خون آج بھی امت سے سوال کرتا ہے: "کیا تم نے ظلم کے خلاف آواز بلند کی؟” امام حسینؑ کی تنہائی، ان کا سجدہ، آج بھی ہر غیرت مند دل کو بیدار کرتا ہے۔ بی بی زینبؑ کی قیادت، ان کا صبر، ان کا خطبہ آج بھی بتاتا ہے کہ پردہ نشین عورت جب میدان میں اترتی ہے تو یزید جیسے تخت لرز جاتے ہیں۔
یہ کربلا کا پیغام ہے۔ یہ درد کا قصہ نہیں، یہ عشق کا دستور ہے۔ یہ وہ قربانی ہے جس نے دینِ محمدی کو ہمیشہ کے لیے زندہ رکھا۔ حسینؑ کا سر نیزے پر گیا، مگر جُھکا نہیں۔ اگر چاہو تو زندہ رہنے کا سلیقہ حسینؑ سے سیکھو اور مر مٹنے کا مفہوم علی اصغرؑ کے گلے سے سیکھو۔