مزید دیکھیں

مقبول

پہلگام فالس فلیگ، بھارتی سرجیکل اسٹرائیک کا بھی پردہ چاک

پہلگام فالس فلیگ، بھارتی سرجیکل اسٹرائیک کا بھی پردہ...

دریاؤں اور آبی ذخیروں میں پانی کی صورتحال

واٹر اینڈ پاور ڈیولپمنٹ اتھارٹی (واپڈا) نے دریاؤں اور...

مسلح افواج نے بھارت کے مکروہ حملے کا منہ توڑ جواب دیا، وزیراعظم

وزیراعظم شہبازشریف نے کہا ہے کہ افواج پاکستان...

‎یہ خاموشی کب تک؟تحریر:‎ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

‎موسم گرما کی ایک ایسی دوپہر جب چیل بھی انڈا چھوڑ جاتی ہو، سکول بس سے اترنے والی بچی نے ادھر ادھر دیکھا اور ایک طرف کو چل دی۔ ہر روز بس معمول کے مطابق رکتی، وہ بس سے چھلانگ لگا کے اترتی، بستہ کمر پہ بندھا ہوتا اور تیزی سے چلتی ہوئی اس گلی میں داخل ہو جاتی جو دو تین موڑ مڑتی اس کے گھر تک جاتی تھی۔‎وسیع سڑک پہ دو رویہ دکانیں تھیں جو دوپہر کے وقت عموماً خالی پڑی ہوتیں اور ددوکاندار گرمی کی شدت سے بیزار گاہکوں کے انتظار میں اونگھ رہے ہوتے۔‎اس دوپہر وہ بچی گلی میں داخل ہونے کی بجائے اس جنرل سٹور کی طرف مڑ گئی جس کے برآمدے میں بہت سے ایسے ریک پڑے ہوتے جو مختلف کمپنیاں اپنی پروڈکٹ کے ہمراہ رکھوا دیتیں۔ ہر ریک کے اوپر اس چیز کا بڑا سا اشتہار بھی لگا ہوتا جس سے ریک کے اندر موجود شے کا علم ہو جاتا۔‎بچی برآمدے میں پڑے اس ریک کے پاس رکی جس کے اوپر لگے اشتہار میں ایک خوبصورت عورت ایک جھولے پہ بیٹھی مسکرا رہی تھی۔ نیچے ریک کے شیلف پہ بہت سے پیکٹ پڑے ہوئے تھے۔
‎بچی کو آتے دیکھ کے اونگھتا دوکاندار سیدھا ہو کے بیٹھ گیا،
‎“بیٹا، کونسی چاکلیٹ دوں”
‎“نہیں انکل، چاکلیٹ نہیں چاہیے” بچی با اعتماد لہجے میں بولی۔
‎“پھر کیا چاہیے بیٹا آپ کو؟” دوکاندار نے شفقت سے پوچھا۔
‎“وہ”
‎بچی کی انگلی اس ریک کی طرف اشارہ کر رہی تھی جس پہ وہ مسکراتی ہوئی عورت براجمان تھی۔
‎دوکاندار نے حیران ہو کے بچی کی طرف دیکھا۔ شاید بچی کو اس کی بڑی بہن یا ماں نے خریدنے کو کہا ہو، کہ خواتین شرم کے مارے کہنا مشکل سمجھتی تھیں اور اس کی دکان پہ اس ریک کی سیل بہت ہی کم تھی۔ بغیر کچھ کہے اس نے ایک خاکی لفافے میں پیکٹ لپیٹ کر بچی کو تھما دیا جو اس لفافے کو سکول بیگ میں رکھ کر جلدی سے سیڑھیاں اتر گئی!

‎ہمارا سن ہو گا یہی کوئی بارہ تیرہ برس کا اور ہم محسوس کر چکے تھے کہ کلاس میں ہم جماعتوں کی کھسر پھسر بڑھ چکی ہے۔ دبی دبی آواز میں رازو نیاز، شرمائی لجائی مسکراہٹ، دوپٹہ اوڑھنے میں احتیاط اور پابندی، اٹھتے بیٹھتے دامن کو جھٹکنا اور پشت سے قمیض سیدھی کرنا تو تھا ہی مگر کچھ اور بھی تھا جس کی پردہ داری تھی اور وہ ہم پہ کھلتا نہیں تھا۔
‎اب ماجرا یہ تھا کہ ہم کلاس کی اکژیت سے معصوم اور کم عمر دکھائی دیتے تھے سو کئی موضوعات ہمارے لئے شجر ممنوعہ سمجھے جاتے تھے۔ گو یہ سمجھنے والے یہ نہیں جانتے تھے کہ ہماری آگہی کا درجہ بیشتر ہم جماعتوں سے اوپر ہی تھا۔
‎کبھی کبھار کچھ لڑکیاں ٹوہ لینے کے انداز میں ہماری طرف دیکھتیں گویا اندازہ لگا رہی ہوں کہ ہم کیمپ میں ساتھی بنے کہ نہیں۔ سیدھے سبھاؤ لوگ ہماری معصومیت کو داغدار کرنے کا حوصلہ نہیں پاتے تھے۔
‎کتابیں اور رسائل پڑھ کے کچھ اندازے تو ہم لگا چکے تھے سو ایک روز آپا کے سر ہوئے کہ مخفی امور و رموز کی مزید تفصیلات سے دلچسپی تھی۔ آپا سے ہم نے بات کچھ یوں شروع کی کہ نہ جانے کیوں ہم جماعتیں ٹٹولتی ہوئی نظروں سے ہمیں دیکھتی رہتی ہیں؟ آپس میں تو کچھ کہتی ہیں لیکن جب ہم پاس پہنچتے ہیں تو خاموش ہو جاتی ہیں؟
‎آپا نے پہلے کچھ ٹال مٹول کرنے کی کوشش کی لیکن ہماری ضد کے سامنے بھلا کب تک ٹھہرتیں۔ چلیے جی انہیں بتانا ہی پڑا کہ ہمیں بھی ایک ناگہانی کا سامنا کرنا ہو گا لیکن یہ علم نہیں کہ کب؟ کہاں؟ کس وقت؟

‎منصوبہ ساز تو ہم شاید پیدائشی طور پہ تھے کہ ہر بات پہلے سے سوچ کے رکھتے۔ اب دماغ اس جوڑ توڑ میں مصروف تھا کہ ہم نے اس آفت سے نبٹنا کیسے ہو گا؟ آپا کے مطابق تو وقت پڑنے پر ہمیں روئی کا ایک بنڈل فراہم کیا جانا تھا جس کے ساتھ ڈاکٹری پٹی بھی ہو گی۔ حسب ضرورت روئی اور اس پہ لپٹی جالی نما پٹی…. بھئی یہ تو بہت فضول آئیڈیا ہے، روئی اور پٹی سے تیاری … کچھ اور ہونا چاہئے، ہم نے دل میں سوچا۔
‎اسی سوچ بچار میں کچھ دن گزرے کہ ہمیں حل سمجھ آ گیا اور اس کا سہرا اخبار کے سر بندھا جس میں چھپے اشتہار ہم بہت شوق سے پڑھتے تھے۔
‎اب اگلا مرحلہ کہاں سے اور کیسے کا تھا۔ وہ بھی ہماری عقابی نظر کی بدولت سر ہوا کہ سکول واپسی پہ جس سڑک پہ ہم بس سے اترا کرتے تھے ، وہیں ایک جنرل سٹور کے برآمدے میں ایک ریک پہ ہماری مشکل کا جواب رکھا ہوا تھا۔ یہ ہماری اور سینٹری پیڈز کی پہلی شناسائی تھی، جانسن اینڈ جانسن کے بنائے ہوئے موڈیس پیڈز!

‎اس دن جنرل سٹور سے پیڈز خرید کر لانے کے بعد گھر میں انہیں چھپا کر رکھنا بھی ہمارا ایک کارنامہ تھا۔ اپنی تیاریوں کی خبر ہم اماں اور آپا کو نہیں دینا چاہتے تھے۔ پیڈز خرید کر اب ہماری حالت اس سپاہی کی سی تھی جو محاذ جنگ پہ سرحد کے پاس چوکنا ہو کے دشمن کا انتظار کر رہا ہو اور دشمن ہو کہ آ ہی نہ چکتا ہو۔‎کچھ ہی ماہ کے بعد وہ وقت آ ہی گیا جس کے لئے ہم کمر کس کے تیار بیٹھے تھے۔ بنا پریشان ہوئے یا روئے دھوئے ہم نے اس صورت حال سے بخوبی نمٹ لیا۔ اور مزے کی بات یہ کہ اماں اور آپا کو اگلے چھ ماہ تک پتہ ہی نہ چل سکا کہ ان کی ناک کے نیچے کیا کچھ ہو رہا ہے؟

‎یہ راز یوں اگلنا پڑا جب اماں نے پریشان ہو کر ہمیں ڈاکٹر کے پاس لے جانے کا منصوبہ بنایا۔ علم ہونے پہ ہم کھلکھلاتے ہوئے بولے، ہم بالکل نارمل ہیں اور ہمیں ماہواری ہوتے ہوئے چھ ماہ گزر چکے ہیں۔
‎اماں اور آپا کی حیرت زدہ پھٹی پھٹی آنکھیں ہمیں آج تک نہیں بھول پائیں!
‎ان کی لاپروا الہڑ بیٹی معاشرتی دباؤ کے ساتھ جنگ کا آغاز کر چکی تھی۔