پیدائش:14 نومبر 1942ء
گوہاٹی، آسام
برطانوی ہند کے صوبے اور علاقے
وفات:29 نومبر 2011ء
گوہاٹی، آسام، بھارت
قلمی نام:مامونی رائسم گوسوامی
پیشہ:سماجی کارکن، مصنفہ، ادیبہ، شاعرہ
قومیت:بھارتی
دور:1956ء-2011ء
اصناف:آسامی ادب
موضوع:Plight of the
۔ dispossessed in
۔ بھارت
۔ and abroad
نمایاں کام:The Moth Eaten
۔ Howdah of a Tusker
۔ The Man from Chinnamasta
۔ Pages Stained With Blood
شریک حیات:مادھون رائسم ائینگار (متوفی)
مامونی رایسم گوسوامی ایک آسامی مصنفہ، شاعرہ، پروفیسر اور لکھاری تھیں۔ انھیں 1983ء میں ساہتیہ اکیڈمی اعزاز، 2001ء میں گیان پیٹھ انعام اور پرنسپل پرنس کلاوس لاوریٹ انعام، 2008ء سے نوازا جا چکا ہے۔ وہ عصر حاضر کی مشہور ادیبہ ہیں جن کی کئی کتابیں آسامی سے انگریزی میں ترجمہ ہو چکی ہیں۔
اپنی ادبی دنیا کے علاوہ وہ سماجی تبدیلی کے لیے بھی مشہور ہیں۔ انھوں نے اپنی تحریروں میں سماجی آزادی اور سماجی تبدیلی کی بات کی ہے اور آزاد آسام اور حکومت ہند کے مابین ثالثی بن کر صلح و امن کی خوب کوششیں کیں۔ ان کی کوششوں کی وجہ سے ایک گروپ بنام پپلز کنسلٹیٹو گروپ بنا۔ وہ خود کو امن کی متلاشی مانتی تھیں۔ ان کی تحریروں کو کئی اسٹیج اور ناٹک میں دکھایا گیا ہے۔ ایک فلم اداجیہ ان کی ناول پر بنی ہے۔ اور اسے بین الاقوامی اعزازات سے بھی نوازا گیا ہے۔ ان کی زندگی پر ایک فلم بنی جس کا نام ورڈس فروم دی مسٹ ہے اور جسے جہنو بروا کے ڈیریکٹ کیا ہے۔
ابتدائی زندگی اور تعلیم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اندرا گوسوامی کی ولادت گوہاٹی میں ہوئی۔ ان کے والد اومرکنٹ گوسوامی اور والدہ امبیکا دیوی ہیں۔ انتدائی تعلیم گوہاٹی میں حاصل کرنے کے بعد کوٹن کالج کوہاٹی سے آسامی ادب میں گریجویشن کیا اور وہیں سے اسی موضوع میں ماسٹر بھی کیا۔
کیرئر
۔۔۔۔۔۔
1962ء میں ان کی پہلی کتاب ”چناکی موروم“ منظر عام پر آئی جو کہانیوں کا مجموعہ تھی اور اس وقت وہ طالبہ ہی تھی۔ آسام میں انہیں مامونی بائدیو کے نام سے جانتے ہیں۔ ان کی پہلی کتاب کے ناشر کیرتی ناتھ نے انہیں اپنے رسالہ میں لکھنے کے لیے دعوت دی اور اس وقت وہ محض 8 برس کی تھیں۔
ذہنی دباؤ
۔۔۔۔۔۔
بچپن ہی سے انہیں ذہنی دباو کا سامنا کرنا پڑا۔ اپنی خود نوشت سوانح عمری، دی ان فنشڈ آٹوبایوگرافی، میں انہوں نے لکھا ہے کہ انہوں نے شیلونگ میں کئی بار اپنے گھر سے کودنے کی کوشش کی۔ متعدد خود کشی کے اقدام نے ان کی جوانی کی زندگی کو اجیرن بنا دیا۔ شادی کے محض 18 ماہ بعد ان کے کرناٹک نزاد شوہر کا کشمیر میں ایک سڑک حادثہ میں انتقال ہو گیا جس کے بعد انھوں نے نیند کی گولیاں لینی شروع کر دیں۔ اس کے بعد انہیں آسام لایا گیا اور انہوں نے درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا اور سینک اسکول، گوالپارا میں معلمہ ہو گئیں۔ یہاں نے انہوں پھر لکھنا شروع کیا لیکن اس بار ان کی تحریروں میں زندگی کے حادثات کی جھلک صاف دکھائی دیتی تھی بالخصوص شوہر کی وفات اور مدھیہ پردیش اور کشمیر میں زندگی گزارنے کا تجربہ ان پر کافی اثر کر چکا تھا۔
ورانداون کی زندگی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گوالپارا میں تدریس کے بعد ان کے استاد نے انہیں ورنداون جانے کا مشورہ دیا تاکہ کچھ ذہنی سکون مل سکے۔ انہوں نے اپنی بیوگی کا تذکرہ اپنی ناول دی بلیو نیکیڈ بارجا، 1976ء میں کیا اور ورنداون کی دکھ بھری زندگی کا بھی نقشہ کھینچا ہے۔ ایک درندناک پہلو ورنداون کا یہ بھی ہے کہ جوان بیوہ عورتوں کو آشرم والے خوب ترجیح دیتے ہیں جبکہ بوڑھی عورتیں محروم رہ جاتی ہیں۔ ورانداون میں انہوں نے راماین کا مطالعہ شروع کیا تلسی داس کے راماین کا کثیر حصہ پڑھ ڈالا۔ تلسی داس کی راماین انہوں نے محض 11 روپیہ میں خریدی تھی۔
دہلی یونیورسٹی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قدہلی یونیورسٹی کے شعبہ بھارتی زبان وادب میں آسامی زبان کی پروفیسر ہو گئیں اور اس طرح اب ان کا مسکن دہلی ہو گیا۔ یہیں رہ کر اہوں نے اپنی شاہکار کتابیں لکھیں جن میں کئی افسانے جیسے ہری دوئے، ننگوتھ شوہور، بوروفور رانی شامل ہیں۔
انہوں نے اپنی کتاب پیجیز سٹینڈ وتھ بلڈ میں سکھوں پر ہونے مظالم کو موضوع بنایا جب سابق وزیر اعظم بھارت اندرا گاندھی کے قتل کے بعد سکھ مخالف فسادات کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ گوسوامی اس وقت دہلی شکتی نگر، اترپردیش علاقہ میں قیام پزیر تھیں اور انہوں نے اپنی آنکھوں سے فسادات کا مشاہدہ کیا تھا۔
کامیابی
۔۔۔۔۔۔۔
1982ء میں انہیں ساہتیہ اکادمی اعزاز کے نوازا گیا۔ 2000ء میں گیان پیٹھ انعام سے سرفراز ہوئیں۔ گوسوامی کے ناول کے دو خاص موضوعات عورت اور آسامی سماج ہے مگر انہوں آسامی سماج میں ایک مرد کردار اختراع کیا جو اندرناتھ کا ہے جسے انہوں نے اپنی کتاب دتال ہنتیر اونی ہودہ میں لکھا ہے۔
کتابیات
۔۔۔۔۔۔
ناول
۔۔۔۔۔۔
۔ (1)1972ء ۔ چیناور سروت
۔ (2)1976ء نیل کنٹھی براہ
۔ (3)1980ء اہیرون
۔ (4)1980ء میمور دھورا
۔ (5)1980ء بدھو ساگور دھوکھور گیشا
۔ (6)1988ء دتال ہتیر اونی کھوا ہودا
۔ (7)1989ء اودے بھانور چرترو
۔ (8)ننگوتھ سوہور
خود نوشت سوانح
۔۔۔۔۔۔
۔ (1)این ان فنشڈ آٹوبایوگرافی
۔ (آسامی زبان:আধা লেখা দস্তাবেজ)
۔ (2)بایوگراگیز نیو پیجیز
۔ (آسامی زبان:দস্তাবেজ নতুন পৃষ্ঠা)
۔ (3)بایوگراگیز نیو پیجیز
۔ (آسامی زبان:অপ্সৰা গৃহ)
افسانے
۔۔۔۔۔۔
۔ (1)بیسٹ
۔ (2)دوارکا اینڈ ہز سن
۔ (3)دی جرنی
شاعری
۔۔۔۔۔۔
۔ (1)پین اینڈ فلیش
۔ (2)پاکستان
۔ (3)اوڈے تو ا ہور
غیر افسانوی ادب
۔۔۔۔۔۔
۔ (1)راماین فروم گنگا ٹو برہم پتر، دہلی 1996ء
۔ (2)آن لائن
۔ (3)دی جنرل
اعزازات
۔۔۔۔۔۔
۔ (1)1982ء- ساہتیہ اکیڈمی
۔ (2)1989ء- بھارت نرمان اعزاز
۔ (3)2000ء- گیان پیٹھ انعام
۔ (4)2002ء- پدم شری اعزاز
۔ (انہوں نے قبول کرنے سے منع کر دیا)
۔ (5)2007ء- اروناچل پردیش کی
۔ راجیو گاندھی یونیورسٹی کی جانب سے
۔ ڈی لیٹ کی اعزازی ڈگری
۔ (6)2008ء- اندرا گاندھی
۔ نیشنل اوپن یونیورسٹی کی جانب سے
۔ ڈی لیٹ کی اعزازی ڈگری
۔ (7)2008ء- ایشور چندر ودیاساگر
۔ گولڈ پلیٹ من جانب ایشیاٹک سوسائٹی
۔ (8)2009ء- آسام رتن
۔ ریاست آسام کا اعلیٰ ترین اعزاز۔