یومِ آزادی اور ہم تحریر عبید الله

0
40

آج آنکھ کھلی تو گلی میں عجب شور شرابہ اور قہقہوں کی آواز سنائی دی پوچھنے پر معلوم ہوا کہ آج یومِ آزادی منایا جا رہا ہے یہ سن کر میں سکتے میں آگیا کہ ہم اپنی روزمرہ کی زندگی میں اس قدر مصروف ہوگئے کہ ہمیں اپنا آزادی کا دن یاد نہیں جو کہ ہمیں پتہ نہیں کتنی قربانیوں سے نصیب ہوا۔ ابھی میں انہیں سوچوں میں گُم تھا کہ وقت نے میرا ہاتھ پکڑا اور 14 اگست 1947 کے دن لا کھڑا کیا تو یہاں ایک الگ دنیا دیکھنے کو ملی ایک طرف دیکھا تو عورتیں شکرانے کے نوافل ادا کرنے میں مصروف ہیں تو دوسری طرف بزرگوں کو فکر مند دیکھا کہ جیسے وہ کسی طوفان کی آمد اور نقصان سے پیشگی با خبر ہیں۔ ابھی میں انہیں فکر مند دیکھ رہا تھا کہ اچانک رات کی تاریکی کو ایک پر سوز نسوانی آواز نے چیرا اور اس کے ساتھ ہی کچھ نوجوان ہاتھوں میں ڈنڈے تو کچھ نہتے گلی کو بھاگے، کچھ دیر بعد ایک نوجوان نے بری خبر سنائی کہ چاچے نورے کی بیٹی کو کافروں نے عصمت دری کے بعد قتل کر دیا ہے۔ یہ سن کر میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے اور بزرگوں کی خاموشی موت کی خاموشی میں بدل گئی۔ گو کہ یہ مظالم مسلمانوں کے لیے نئے نہ تھے اور دنگے فساد بھی کافی دن سے شروع تھے لیکن آج آزادی کے اعلان کے بعد ان میں شدت آگئی تھی۔ کافر بھوکے کتوں کی طرح مسلمانوں کو ڈھونڈ کر چیتھڑے کرنے میں مصروف تھے اور ابھی تک یہ واحد مسلم اکثریتی علاقہ محفوظ تھا کیونکہ یہ شہر سے بہت دور ویرانے میں آباد تھا لیکن بد قسمتی سے اس کی بھنک بھی کافروں کو لگ چکی تھی۔ اب کیا تھا کہ نوجوان گلیوں میں پہرہ دینے میں مصروف تھے جدھر سے کوئی آہٹ سنائی دیتی اسی سمت بھاگ پڑتے۔ اس سانحہ کے بعد بزرگوں کی خاموشی سرگوشیوں میں تبدیل ہو گئی، بچوں کی شرارتیں معصومیت میں تبدیل ہو گئیں اور وہ ماؤں کی گودیوں میں سہم کر بیٹھ گئے۔
دوسری طرف پورا گاؤں ایک دوسرے کو یوں دیکھ رہا تھا کہ جیسے کہ صبح کی روشنی میں ایک دوسرے کو دیکھنا نصیب نہیں ہوگا۔ مائیں اپنی بیٹیوں کو سینے سے لگائے رورہی ہیں تو باپ بیٹوں کا ماتھا چوم کر بہنوں کی عصمتوں کی حفاظت کی قسم لے رہے تھے کہ کچھ کمزور اور با عزت افراد نے صرف اس وجہ سے اپنی بیٹیوں کو ذبح کر دیا یا اندھے کنوئیں میں دھکا دے دیا کہ ان کی بیٹیاں درندگی کا شکار ہو کر بغیر کفن کے دفن نہ ہوں اور کچھ بہادر بیٹیوں نے آگے بڑھ کر موت کو خود گلے لگا لیا صرف اس وجہ سے کہ وہ پاکستان کی جانب ہجرت کے دوران کسی رکاوٹ کا باعث نہ بنیں اور درندگی کا نشانہ بننے کی بجائے عزت کی موت کو ترجیح دی۔ اسی دوران گاؤں کے ایک تاجر کی چیخ سنائی دی اور اس کے ساتھ ہی وہ اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھا کیونکہ اس کی اکلوتی بیٹی نے کنویں میں چھلانگ لگا کر جان دے دی۔اسکے بعد رات کی تاریکی میں پورے گاؤں نے اپنے گھر، مال اور پیاروں کی نعشوں کو بھیگی آنکھوں سے خیر آباد کہا اور اپنے سفر کا آغاز کیا۔ رات کی تاریکی میں ان بے گھر مسافروں پر کہیں سے کوئی مشتعل افراد کی ٹولی حملہ آور ہوتی اور کئی کو زخمی اور شہید کر کے چلے جاتے۔ قافلے میں شامل عورتوں اور لڑکیوں کو عصمت دری کے بعد قتل کر دیتے، دودھ پیتے بچوں کو برچھیوں پر تسبیح کے دانوں کی طرح پرو دیتے۔ ان سب سے بچنے کے لیے وہ لوگ دبے پاؤں چلتے اور بچوں کو سلائے رکھنے کی کوشش میں مصروف رہے تاکہ وہ کافر وں سے اپنی جان محفوظ رکھ پائیں۔ صبح کے سورج نے کیا دیکھا کہ وہ سینکڑوں افراد کا قافلہ صرف چند نفوس کا بچ گیا اورادھر ان کے گاؤں میں ان کے عزیزوں کی نعشیں بغیر کفن کے سورج کی کرنوں کو لپیٹے ہوئے کافروں کومنہ چڑھا رہی تھیں اور بتا رہی تھیں کہ ان کے ناپاک عزائم مسلمانوں کی آزادی کا راستہ نہیں روک سکتیں۔ ساری رات کا بھوکا پیاسا، تھکا ماندہ چند افراد پر مشتمل یہ قافلہ آخر کار ایک بڑے قافلے کا حصہ بننے میں کامیاب ہو گیا جوکہ کافی علاقوں کے افراد پر مشتمل نوجوانوں کے حصار میں تھا لیکن ان کے حالات بھی مختلف نہ تھے بلکہ یہ بھی لٹاپٹا قافلہ اپنے بہت سارے پیاروں کی نعشوں کو سورج کی بے رحم قرنوں کے حوالے کر آئے تھے۔بلآخرکئ دن کی مشکلات اورمسافت کے بعد جب یہ قافلہ اپنی منزل پر پہنچا تو امدادی کیمپوں میں مقیم افراد نے اپنا غم بھول کر ان کو گلے لگایا تو ایسا منظر آسمان نے دیکھا کہ سورج نے مارے شرم کے منہ چھپا لیا اور بادلوں نے اس بات پر آنسو بہائے کہ کیونکر انسان اپنا غم بھلائے دوسروں کو سہارا دے رہاہے۔ اپنا بیٹا کھوکر دوسرے کے بیٹے کو گلے لگا رہا ہے، اپنا خاندان اپنی آنکھوں کے سامنے ذبح ہوتا دیکھ کر بھی دوسرے خاندان کی خدمت میں لگا ہے شاید اس دن آسمان کو بھی سمجھ آیا ہو گا کہ انسان کو اشرف المخلوقات کیوں بولا گیا۔
میں ان سب حالات کو دیکھ رہا تھا کہ اچانک مجھے میرے بھائی نے آں جھنجھوڑا اور واپس آج کے دن میں لے آیا۔ اس نے آزادی کے دن کی مبارکباد دی اور رونے کی وجہ پوچھی، نہ جانے کب سے میری آنکھوں سے غیر محسوس طور پر آنسو نکل رہے تھےاور میں بےخبر اپنی سوچوں میں گم تھا، میں نے اپنے بھائی کے سوال پر آنسو صاف کرتے ہوئے محض مسکرا کر سر ہلانے پر اکتفا کیا۔ آخر اسے جواب دیتا بھی تو کیا کہ ہمارے آباؤ اجداد نے کس قدر قربانیوں سے آزادی حاصل کی اور ہمارے لیے یہ محض ایک چھٹی کا دن بن کر رہ گیا ہے۔جس دن بچے گھر وں کو جھنڈیوں سے سجاتے ہیں اور نوجوان اپنی بائیک کا سلنسر نکال کر گلیوں میں گھماتے اور تیز رفتاری کا مظاہرہ کرتے ہیں اور اگلے دن جھنڈیوں کی گلیوں میں بے حرمتی ہوتی ہےاور نوجوان یا تو اپنی تیز رفتار ی کی وجہ سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں یا پھر کسی سرکاری ہسپتال کے بستر پر ہاتھ پاؤں تُڑواکر زندگی اور موت کے درمیان جھول رہے ہوتے ہیں اور ہمارا ملک آج بھی ترقی کی راہ پر کھڑا ہمارا منتظر ہے۔ ملک ترقی کی راہ پر گامزن تب ہی ہوسکتا ہے جس وقت کہ ہم اس ملک اور آزادی کی اہمیت سمجھ کر اسکےلیے دل و جاں سے محنت کریں گے اور شاید شہداء کی قربانیوں کا تھوڑا سا قرض ادا کر سکیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں آزادی جیسی نعمت کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔
ا

@ObaidVirk_717

Leave a reply