یوم آزادی اور ہم تحریر-سید لعل حسین بُخاری

0
99

پاکستان ایک تحفہ ،ایک نعمت ہے،جو ہمیں اللہ پاک نے عطا کی ہے۔اگر ہمیں اندازہ ہو جاۓ کہ یہ ملک ہم نے کتنی قربانیوں کے بعد حاصل کیا ہے،تو ہم اسکی قدر کرنا بھی سیکھ جائیں۔
پاکستان کا حصول آسان نہ تھا۔اسکے لئے برطانوی سامراج اور ہندو بنیے سے جنگ لڑنا پڑی۔
تحریک آزادی میں بے شمار لوگوں نے اپنی جانوں کے نزرانے پیش کر کے اس ملک کی بُنیاد رکھی۔
عظیم تھے وہ لوگ،پاکستانی قوم ہمیشہ اُن کی احسان مند رہے گی۔
ہم سب کی خوش قسمتی تھی کہ حصول پاکستان کی جنگ کے وقت ہمیں قائد اعظم محمد علی رح جیسے عظیم قائد کی مدبرانہ اور جرات مندانہ قیادت دستیاب تھی۔
قائد اعظم حقیقی معنوں میں نہ بکنے والے اور نہ جُھکنے والےلیڈر تھے۔اُن کی ولولہ انگیز قیادت میں دو قومی نظریے کی بنیاد پر پاکستان معرض وجود میں آیا۔
آج ہم سب سوچتے ہیں کہ ہمیں پاکستان نے کیا دیا؟
کیا ہم نے کبھی یہ سوچا کہ ہم نے اس ملک کو کیا دیا؟
یہ ملک جو کبھی دوسروں کے لئے مثال تھا۔
اسے دنیا کے لئے نمونہ عبرت بنانے والے ناہنجار کون ہیں؟
اس سوال کا سادہ سا جواب تو یہ ہے کہ سیاستدان اور بیور کریسی ہی اس ملک کی تباہی کی زمہ دار ہے۔
مگر یہ جواب اتنا بھی سادہ نہیں۔اس ملک کا بیڑہ غرق کرنے والوں میں بدقسمتی سے ہم سب شامل ہیں۔
لوٹ مار اور کرپشن کا بازار گرم کرنے والوں کو اقتدار میں کون لے کر آتا ہے،؟
کیا یہ مافیاز آسمان سے ٹپک پڑتے ہیں؟
نہیں انہیں ہم سب مل کر لے کر آتے ہیں۔ہم ان کے اقتدار پہنچنے کی سیڑھی ہیں۔جسے یہ مفاد پرست اپنے مطلب کے لئے استعمال کر کے ایک سائیڈ پہ لگا دیتے ہیں۔
لُوٹ مار کا پتہ ہونے کے باوجود ہم اگلی دفعہ پھر بیوقوف بننے کے لئے تیار ہوتے ہیں۔
جس کرپٹ الیٹ کو ہم اقتدار کے ایوانوں تک پہنچاتے ہیں،اُنہیں ملکی خزانے پر ہاتھ صاف کرنے کے لئے بیورو کریسی کا تعاون درکار ہوتا ہے۔اسی تعاون اور ناجائز کاموں میں فرمانبرداری کے لئے وہ ایسے بیورو کریٹس کو اہم پوسٹوں پر تعینات کرتے ہیں،جو انہیں تعاون فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ خود بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ رنگتے ہیں۔
اس ساز باز اور ہمارے غلط فیصلوں کی بدولت اقتدار حاصل کرنے والے پاپی سیاستدانوں کی بدولت پاکستان کی یہ حالت ہو چکی ہے کہ کبھی ہمارا مقابلہ بھارت سے ہوتا تھا،کیونکہ بنگلہ دیش جیسے ملک ہم سے بہت پیچھے تھے۔
مگر اب یہ دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے کہ بنگلہ دیش جیسے ملک بھی ہم سے بہت آگے نکل چُکے ہیں۔
دیگر ملکوں کا آگے بڑھنے کا سفر جاری ہے،جبکہ ہم دن بدن پیچھے جا رہے تھے اور پھربالاخر وقت بدلا،
سیاسی حالات بدلے اور کم ازکم مرکز میں نواز شریف اور زرداری رجیم سے جان چھوٹی۔
ملک کو بنگلہ دیش،نیپال اور سری لنکا جیسے ممالک سے بھی پیچھے دھکیلنے کے زمہ دار یہی لوگ تھے،
جنہوں نے کئی عشرے لگا کر اپنی تجوریاں تو بھر لیں مگر ملکی خزانہ خالی کر گئے۔
آج بھی اگر دنیا کے امیر ترین ملکوں اور افراد لی لسٹ دیکھیں تو،
پاکستان سب سے نیچے اور نواز شریف اور زرداری کا نام امیر ترین افراد کی لسٹ میں نمایاں نظر آۓ گا۔آج حالت یہ ہے کہ ہماری کرنسی بھارت اور بنگلہ دیش کے مقابلے میں تقریبا” نصف پر پہچ چکی ہے۔
موجودہ حکومت کو جس حالت میں ملک ملا،
غنیمت ہے کہ اسکی ٹوٹی پھوٹی معیشت کا سہارا ملنا شروع ہو گیا ہے۔
مگر اس حکومت کو ابھی لمبا سفر طے کرنا ہے،تب جا کر کچھ مداوا کیا جا سکے گا۔
وطن عزیز کے قیام کے بعد ہمارے پاس PIA،سٹیل مل،ریلوے اور سرکاری ٹرانسپورٹ (GTS)جیسے اچھے ادارے تھے۔آج وہ ادارے تباہ ہو چکے ہیں۔
ہم نے متحدہ عرب امارات اور قطرجیسے ملکوں کوانکی ائیر لائنز کھڑی کرنے میں معاونت کی۔
آج ان ممالک کی ائیر لائنز کا شمار دنیا کی ٹاپ ائیرلائنز میں ہوتا ہے،جبکہ PIAدنیا کی بد ترین ائیر لائن بن چُکی ہے۔ان اداروں میں غیر ضروری سیاسی بنیادوں پربھرتیاں کی گئیں۔جہاں دس آدمیوں کی ضرورت تھی وہاں سو آدمی بھرتی کر لیے گئے۔سامان کی خریداری میں کمیشن کھاۓ گئے۔ہر شعبے میں گھپلوں کی بہتات نے ان اداروں کو زمین بوس کر دیا۔
آج ہمارے پاس ریلوے کی شکل میں ایک لولی لنگڑی ریلوے موجود ہے۔جو بظاہر کچھ روٹس پر نہ چلنے کے انداز میں چلتی نظر آتی ہے۔
موجودہ حکومت اس تباہ حال گلشن میں کیا کیا ٹھیک کر پاۓ گی؟
یہ تو وقت ہی بتاۓ گا۔مگر عمران خان کی نیت ،حب الوطنی اور دیانتداری یرکوئ شک نہیں کر سکتا۔
میں عمران خان کا سپورٹر ضرور ہوں مگر غلام نہیں۔میں سب سے یہی کہوں گا کہ
اس پانچ سال کی کارکردگی پر فیصلہ کریں کہ کیا عمران خان ،شریفوں اور زرداری سے بہتر ہے ؟
کیا اس نے کسی حد تک ملک کی سمت درست کر دی ہے۔
اگر جواب ہاں میں ہے تو اگلی باری پھر عمران خان
اور اگر جواب ناں میں ہے تو عمران خان کو بے شک اپنے چاچے دا پُتر مت بنائیں۔اور نہ اسکی ضرورت ہے۔
ہم نے پاکستان کے لئے سوچنا ہے۔اس وطن کی بہتری کے لئے سوچنا ہے۔ہمارے لئے مقدم صرف اور صرف پاکستان ہے۔
ہم نے کسی ایک سیاستدان کے لئے نہیں سوچنا،ہماری سوچوں کا محور صرف اور صرف پاکستان ہونا چاہیے۔
پاکستان ہے تو سب کچھ ہے۔
قیام پاکستان کا زکر مفکر پاکستان علامہ ڈاکٹرمحمد اقبال رح کے زکر کے بغیر ہمیشہ نا مکمل رہتا ہے۔
وہ مفکر پاکستان تھے،جنہوں نے پاکستان کا تصور پیش کیا۔اس تصور،اس خواب کو حقیقت کا روپ دینے کے لئے قائد اعظم رح نے دن رات محنت کی۔اپنی زندگی کا مقصد پاکستان کے حصول کو بنالیا اور بالاخر اللہ پاک نے ان کی شبانہ روز محنت کی بدولت ہمیں پاکستان جیسی نعمت خداوندی اور تحفہ پروردگار عطا کیا۔جس نے نہ صرف ہمارا بلکہ ہماری آنے والی نسلوں کا مستقبل بھی محفوظ بنا دیا۔
چودہ اگست یوم آزادی کے اس موقع پر میں اپنے برادر اسلامی ممالک ایران،تُرکی اور سعودی عرب کا شکریہ بھی ادا کرنا چاہتا ہوں،
جو پاکستان کو بطور ملک تسلیم کرنے والے پہلے ملک بنے۔
اللہ پاک ہمارے ملک کو امن و استحکام اور خوشحالی سے نوازے۔اور ہمیں وہ فیصلے کرنے کی توفیق دے،جو اس ملک کے لئے بہتر ہوں-آمین #

تحریر۔سید لعل حسین بُخاری
@lalbukhari

Leave a reply