آپ بھی بائیکاٹ کیجئے اکیلی عوام ہی کیوں؟

آپ بھی بائیکاٹ کیجئے اکیلی عوام ہی کیوں؟
ازقلم غنی محمود قصوری

پاکستان کا غربت میں دنیا میں 52 واں نمبر ہے جبکہ بنگلہ دیش 62 ویں اور بھارت 63 ویں نمبر پر ہیں،پاکستان میں فی کس سالانہ آمدن تقریباً 5 لاکھ روپیہ کے قریب ہےاور کل شرح خواندگی 62.2 فیصد اور اس میں سے مردوں میں شرح خواندگی 73.4 اور عورتوں میں 51.9 فیصد ہےیعنی کہ ہر اعتبار سے پاکستان ایک ترقی پذیر اور درمیانے درجے کا ملک ہے نا تو اس کا شمار غریب ممالک میں ہوتا ہے نا ہی امیر ممالک میں
مگر ہم مغربی اور عرب ممالک کو دیکھیں تو ہم بہت پیچھے ہیں مگر اس کے باوجود جب بھی امت مسلمہ پر کوئی آفت آتی ہیں تو یہ مڈل کلاس قوم اپنی بساط کے لحاظ سے سب سے پہلے امت کیساتھ کھڑی ہوتی ہے

میں حکومت کی بات نہیں کر رہا میں عام عوام کی بات کر رہا ہوںآپ موجودہ دور کو ہی لے لیجئے اسرائیل اور فلسطینی حماس کے مابین 7 اکتوبر 2023 سے جنگ جاری ہے جس پر پاکستانی قوم نے احتجاج کیا اور بطور احتجاج اسرائیلی پراڈکٹس کا بائیکاٹ کیا،شروع میں بائیکاٹ کچھ خاص نا ہوا تو علمائے کرام اور مذہبی جماعتوں نے عوام میں کمپین شروع کی جس کے باعث لوگوں نے اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ تیز کیا جسکا نتیجہ یہ نکلا کہ گردن میں سریا لئے ملٹی نیشنل خاص کر اسرائیلی کمپنیوں کی چیزوں کی فروخت میں نمایاں کمی واقع ہوئی تو اپنی گرتی ساکھ اور خسارا دیکھ کر اسرائیلی و ملٹی نیشنل کمپنیوں نے عوام کو لالچ دینے کے لئے چیزوں کیساتھ مختلف چیزیں دینا شروع کیں اور کچھ قیمتیں بھی کم کیں

دوسری جانب اس بائیکاٹ سے پاکستانی کمپنیوں کی چیزوں کی فروخت میں واضع اضافہ دیکھنے کو ملا ،یہاں میں ایک چیز واضح کر دوں کہ دنیا بھر میں تین قسم کی اشیا بنتی ہیں، اول لوکل برینڈ دیسی ساختہ اشیا جو کہ گھریلوں و بہت چھوٹی سطح پر بنتی ہیں اور اکثر ناقص کوالٹی کی ہوتی ہیں مگر ان چیزوں میں سے کچھ بہتر بھی ہوتی ہیں ،دوم نیشنل لیول برینڈ کی وہ چیزیں جیسے کہ ہمارے ملک پاکستان میں ہمارے ملک کے ہی باشندوں کی انڈسٹری سے بنی پراڈکٹس ہیں جو باآسانی پورے ملک سے مل جاتی ہیں اور ان کا معیار بھی قدرے بہتر ہوتا ہے سوئم ملٹی نیشنل کمپنیاں جو کہ پوری دنیا میں دستیاب ہوتی ہیں اور اپنی کوالٹی اور معیار و مقدار کا لوہا منوا کر لوگوں کے دلوں پر راج کرتی ہیں مگر وہ الگ بات ہے کہ اس کی آڑ میں مسلمانوں میں کیا کیا زہر گھولا جاتا ہے

جب ملٹی نیشنل کمپنیوں کو چھوڑ کر عوام نیشنل کمپنیوں پر آئی تو نیشنل برینڈز کی چاندی ہو گئی ان کی پراڈکٹس کی فروخت میں بہت اضافہ ہوا اور نفع بھی زیادہ ہو گیا

اب چاہئے تو یہ تھا یہ نیشنل کمپنیاں لوگوں کو ریلیف دیتیں اور اپنی پراڈکٹس کا معیار بہتر کرتیں تاکہ ان کو ملٹی نیشنل کمپنیاں بننے کا موقع ملتا مگر ان کمپنیوں نے لوگوں کو مجبور جان کر محض چند ہی ماہ میں اپنی پراڈکٹس کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا اور معیار بھی کچھ کم کر دیا کیونکہ ان کو پتہ تھا اب مذہب کے نام پر لوگ ملٹی نیشنل و اسرائیلی پراڈکٹس کا بائیکاٹ کر چکے ہیں اور اب مارکیٹ میں انہی کا راج ہو گا سو انہوں نے مجبور عوام پر ایسے وار کرنے شروع کر دیئے جیسے اس مجبور قوم پر ہر گورنمنٹ کرتی آئی ہے

میں نام نہیں لینا چاہتا تاہم آپ سب جانتے ہیں اس وقت پاکستان میں کولڈ ڈرنکس کے ریٹ میں نیشنل اور ملٹی نیشنل برینڈز کا فرق اور کوالٹی کا فرق کتنا رہ گیا ہے بلکہ ملٹی نیشنل کمپنیاں آسانی سے دستیاب ہیں جبکہ نیشنل کمپنیاں نہ تو آسانی سے دستیاب ہیں الٹا ان کے ریٹس کچھ جگہوں پر ملٹی نینشل کمپنیوں سے بھی زیادہ ہو چکے ہیں

اسی طرح ایک واقعہ بتاتا ہوں میں ایک اسرائیلی ملٹی نیشنل ٹوٹھ پیسٹ خریدتا تھا مگر اس بائیکاٹ کے باعث میں نے ایک پاکستانی برینڈ کی ٹوٹھ پیسٹ کو ترجیح دی جس کی قیمت شروع میں 70 روپیہ تھی مگر دو ماہ کے اندر ہی اس کی قیمت 90 روپیہ ہو گئی اور اس میں وزن پورا کرنے کے لئے ہوا زیادہ بھر دی جانے لگی، اب مجبور اََمجھے ایک اور پاکستانی برینڈ منتخب کرنا پڑا مگر بے سود تھوڑے عرصے بعد بات وہیں پر آچکی ہے

بات کریں ایمانداری کی تو قصور اس میں اپنی ملکی ساختہ پراڈکٹس کو خریدنے والی عوام کا ہے کہ اس ملکی ساختہ پراڈکٹس کو بنانے والے لوگوں کا؟
عوام تو امت مسلمہ سے اظہار یکجہتی کی خاطر اعلی ملٹی نینشل برینڈز کو چھوڑ چکی مگر اب نیشنل ساختہ برینڈز نے اپنی ہی عوام کی مجبوری سے فائدہ اٹھا کر قیمتیں زیادہ اور معیار و مقدار کو ناقص کر دیا جس کا نتیجہ آہستہ آہستہ یہ نکل رہا کہ عوام پھر سے انہی ملٹی نیشنل برینڈز کی جانب واپس پلٹنے لگی ہے

بات کریں ان نیشنل برینڈز کے مالکان کی تو وہ لوگ کوئی عام عوام نہیں وہ تو خاص لوگ بلکہ بیشتر تو حکمران لوگ ہیں چاہے وہ موجودہ گورنمنٹ کے ہیں یا سابقہ گورنمنٹس کے ،عوام کے بس میں تو جو تھا عوام نے کیا اب سوچنے کی بات ہے امت سے اظہار یکجہتی کی خاطر ساری قربانی کیا عوام نے ہی دینی ہے ہمارے جاگیردار اور ایلیٹ کلاس طبقے کو صرف موقع سے فائدہ اٹھانا ہی آتا ہے یعنی انہوں نے امت کی خاطر کوئی قربانی نہیں دینی؟

یہ ان نیشنل برینڈز پراڈکٹس کے مالکان سے سوال ہے کہ کیا آپ ایمانداری سے ترقی کرکے ملٹی نیشنل برینڈز نہیں بننا چاہتے مطلب آپ مرغی کھانا پسند کرتے ہیں انڈہ نہیں؟

اللہ کے بندو سوچو کچھ سوچو اس امت کا بھی اور عام عوام کا بھی کاروبار ضرور کرو مگر طریقہ ملٹی نیشنل کمپنیوں سے ہی سیکھ لو حالانکہ ان بے دینوں نے سارا طریقہ اسلام کا بتایا ہوا اپنایا ہے.

Leave a reply