اے دشمن دیں تو نے کس قوم کو ہے للکارا
ہم بھی ہیں صف آرا ‘ہم بھی ہیں صف آرا
ریڈیو پاکستان پر اس نغمے کی ریکارڈنگ جاری تھی کہ ایسے میں پاک ٹی وی چینل پر نیوز کاسٹر قراۃالعین کی جذبات سے بھرپور تیز آواز ابھری ۔؛
بھارت نے پاکستان پر لاہور کی جانب سے حملہ کر دیا ہے ۔اب تک دشمن کے آٹھ سو فوجی ہلاک ہو چکے ہیں ۔
یہ 6 ستمبر 1965 کی صبح کاذب کا وقت تھا جب انڈیا کی ناپاک فوج نے رات کے اندھیرے میں پاکستان پر بزدلانہ وار کیا ۔وہ تو لاہور کے احاطے میں ناشتہ کرنے کے متمنی تھے لیکن ہمارے شیردل نوجوانوں نے انہیں بی آر بی نہر کے پار ہی روک لیا اور ان کے آگے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑے ہو گئے ۔اس جنگ میں فتح کا سہرا لاہوریوں کے سر بھی جاتا ہے اس کے ساتھ عوام بالخصوص گلی محلے کے لڑکے والے بھی شامل ہوگئے ہر کوئی اپنے مذہب اور وطن سے محبت کے جذبے سے سرشار تھا ۔ماؤں نے اپنے بیٹوں کے سر پر خود کفن باندھے لوگوں کو گرمانے کے لیے یہ نغمہ بھی ملک بھر میں رقص کر رہا تھا ۔
اے پتر ہٹاں تے نئیں وکدے
تو لبدی پھریں بازار کڑے
اے شیر بہادر غازی نیں
اے کسے کولوں وی ہر دے نہیں
ایہنا ں دشمناں کولوں کی ڈرنا
اے موت کولوں وی ڈردے نہیں
اے اپنے دیس دی عزت توں
جان اپنی دیندے وار کڑے
محب وطن اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر دشمن کو ناکوں چنے چبوانے سرحدوں پہ پہنچ چکے تھے مائیں بہنیں کھانے بنا کر جانباز فوجیوں اور جوانوں کے پاس پہنچا رہی تھی بہت سی دختران پاکستان ہسپتالوں میں زخمیوں کے لیے نرسنگ کا فریضہ انجام دے رہی تھیی ۔جوش و جذبے کا یہ عالم تھا کہ کوئی بھی فوجی یا سویلین نوجوان زخمی ہسپتال میں لایا جاتا تو وہ دوبارہ میدان جنگ میں جانے کی خواہش کرتا ۔شدید بیہوشی میں بھی وہ کافروں سے جنگ لڑنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہے تھے اور ہندوؤں کو للکار رہے تھے ۔
6 ستمبر 1965 کی جنگ کے پیچھے بھارت کی وہ جارحانہ کارروائیاں تھی جو وہ پچھلے کئی ماہ سے کر رہا تھا ۔مسلمان ریاستوں سے چھیڑ چھاڑ اس کی د یرینہ روایت ہے اس روایت نے ہی تو سلطان محمود غزنوی کو ہندوستان پر سترہ حملے کرنے پر مجبور کیا تھا ۔ہمیشہ یہ ناپاک دشمن پہل کرتا ہے اور پھر منہ کی کھا تا ہے
جنگ شروع ہو چکی تھی ایسے میں صدر پاکستان محمد ایوب کے خطاب نے مسلمانوں کے جوش و جذبے کو مزید ابھا را۔ 6 ستمبر 1965 کو ریڈیو !پاکستان پر ایوب خان نے خطاب کرتے ہوئے کہا ۔میرے عزیز ہم وطنو!
دس کروڑ پاکستانیوں کے امتحان کا وقت آگیا ہے ۔ہندوستان نے پاکستان پر لاہور کی جانب سے حملہ کر دیا ہے مئی 1965 میں ہندوستان نے جنگ بندی کی لائن کو توڑتے ہوئے جان بوجھ کر کارگل کی تین چوٹیوں پر قبضہ کرلیا ۔اقوام متحدہ کی مداخلت پر انہیں خالی تو کردیا لیکن انہوں نے اگست میں ان پردوبارہ قبضہ جما لیا بعد ازاں اس نے چکوال کی چوکیوں پر بھی قبضہ کرلیا اور مختلف سرحدوں کی جانب سے بھی پاکستانی عوام پر گولا باری کی ۔اس قدر اشتعال انگیزی کے باوجود پاکستانیوں نے بڑے صبر سے کام لیا لیکن ہندوستانیوں نے اس بات کو ہماری کمزوری سمجھا ۔ان کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں کے سبب آزاد کشمیر کو اپنی اپنی فوجیں بھی بھمبھر کے مقام پر لا کر کھڑا کرنا پڑیں ۔ہندوستان نے تو اپنے ہوائی بیڑے کو بھی بے دریغ جنگ میں دھکیل دیا اس طرح حالات کو مزید خطرناک بنا دیا اس وقت تمام دنیا پر ظاہر ہوگیا تھا کہ کشمیر میں ہندو جارحیت کا اصل مقصد پاکستان پر حملہ کرنا ہے ۔پچھلے اٹھارہ سال سے وہ پاکستان کے خلاف جنگی تیاریاں کرتے رہے ہیں ہم شروع سے ہی اس بات کو جانتے تھے کہ یہ جنگی تیاریاں ہمارے لئے ہیں وقت نے اسے سچ کر دکھایا ۔اب جب کہ ہندوستان نے اپنی روایتی منافقت اور بزدلی سے کام لیتے ہوئے باقاعدہ اعلان جنگ کیے بغیر اپنی فوجوں کو پاکستان پر حملہ کرنے کا حکم دے دیا ہے تو ہمارے پاس بس ایک ہی راستہ رہ گیا ہے اور وہ یہ کہ ہم ان کے ناپاک حملے کا ایسا منہ توڑ جواب دیں گے کہ ہندوستانی حکمرانوں کے ناپاک سامراجی منصوبوں کا خاتمہ ہوجائے ۔
انہوں نے لاہور کے دلیر اور بہادر لوگوں کو سب سے پہلے للکاراہے تاریخ میں لاہور کے دلیروں کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا ۔
پاکستان کے 10 کروڑ عوام جن کے دلوں میں لا الہ الا اللہ محمد k الرسول اللہ کی صدا گونج رہی ہے اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک دشمن کی توپیں ہمیشہ کے لیے خاموش نہ ہو جائیں ۔ہندوستانی حکمران شایدابھی نہیں جانتے کے انہوں نے کس قوم کو للکارا ہے ہمارے اندر ایمان اور یقین کی طاقت ہے ۔ہم پورے اتحاد اور عزم کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کریں گے اللہ تعالی کا واضح ارشاد ہے کہ’ فتح ہمیشہ سچ کی ہوگی” ۔جنگ شروع ہو چکی ہے اللہ تعالی نے ہماری مسلح افواج کو اپنے جوہر دکھانے کا موقع دیا ہے ہماری فوجیں انشاءاللہ کامیاب ہوگیں ۔
میرے عزیز ہم وطنو اس آزمائش کی گھڑی میں آپ مکمل طور پر پرسکون اور متحد رہیں
میرے ہم وطنوں آگے بڑھو اور دشمن کا مقابلہ کرو اللہ تمہارا حامی و ناصر ہو
اس جنگ نے بہت سے شہداء کے کارنامے رقم کیے ۔
پاکستان کے شہداء میں ایک ایسا ہی اہم کردار میجر عزیز بھٹی شہید کا ہے ۔میجر میجر عزیز بھٹی 6 اگست1928 کو ہانگ کانگ کے خوبصورت جزیرے میں پیدا ہوئے ان کے والد مقامی سکول میں معلم تھے ۔1941 میں جاپان نے ہانگ کانگ پر حملہ کردیا ان کے والدین ہجرت کر کے پاکستان کے شہر گجرات کے ایک علاقے کھاریاں میں رہائش پذیر ہو گئے ۔میجر میجر عزیز بھٹی شروع سے ہی بڑے بہادر اور بڑے زیرک انسان تھے پڑھ لکھ کر وہ فوج میں بھرتی ہو گۓ انہوں نے پاک فوج میں کمیشن حاصل کیا اور پنجاب رجمنٹ کا حصہ بن گئے یہ۔
29 اگست 1965 کی بات ہے جب میجر عزیز بھٹی اپنے اہل وعیال کے ساتھ چھٹیاں گزار رہے تھے تو انہیں یونٹ واپس بلا لیا گیا جنگی حالات سر پر منڈلا رہے تھے وہ یونٹ آنے کی تیاری کرنے لگے جب کھانے کی میز پر ان کی بیوی نے آ فسردہ لہجے میں پوچھا کہ جنگ ختم ہو گئی تو وہ واپس آ جائیں گے جواب میں عزیز بھٹی نےمسکرا کر جواب دیا ؛پریشان کیوں ہوتی ہو تمہیں معلوم تو ہے ایک فوجی کی زندگی میں اتارچڑھاؤ آتے رہتے ہیں ۔ان کا چھوٹا بیٹا ذوالفقار معصومیت سے بولا ابا جان کیا جنگ ہونے لگی ہے ؟عزیز بھٹی نے جواب دیا ہاں ۔شاید حالات کچھ زیادہ اچھے نہیں رہے تو وہ معصومیت سے مکا ہو ا میں لہراتے ہوۓ بولا پھر کبھی دشمن کو پیٹھ نہ دکھانا۔ میجر نے اس کا ماتھا چومااور اس سے کہا کہ پھر یہ بھی وعدہ کرو کہ میں شہید ہوجاؤں تو میری لاش پر نہیں رونا اور پھر اپنی بیوی اور بیٹے سے کیا گیا وعدہ وفا کرنے میدان جنگ میں پہنچ گئے ۔
میجر عزیز بھٹی کو لاہور سیکٹر میں برکی کی جانب سے ایک کمپنی کی کمان سونپی گئی جہاں انہوں نے اپنے جانبازوں کے ساتھ مسلسل چھ دن اور چھ راتیں دشمن کا مقابلہ کرتے گزاریں۔ نئ وردی نہ ملنے پر ایک افسر نے اپنی وردی پہننے کو کہا تو میجر عزیز نے جواب دیا نہیں وردی اور کفن اپنا ہی اچھا لگتا ہے ۔
نویں اور دسویں کی درمیانی شب کو دشمن نے اس سیکٹر پر بھرپور حملے کے لیے اپنی پوری بٹالین جھونک دی لیکن میجر عزیز بھٹی اور اس کے جوانوں نے ان کے سامنے اپنے جسموں کی فصیل کھڑی کردی اور دیوانہ وار ان کا مقابلہ کیا۔میجر عزیز بھٹی مسلسل دشمن کی چوکیوں پر بی آر بی نہر کے اوپر کھڑے ہو کر نظریں جمائے کھڑے تھے کہ مخالف ٹینک کا ایک گولہ آپ کو أ لگا اور آپ موقع پر ہی شہید ہوگئےلیکن دشمن کو سرحد پار کرنے میں ناکام کر دیا جب دشمن یہاں سے ہٹ رہا تھا تو اس سیکٹر کے 150نوجوان شہید جبکہ اس کے سینکڑوں فوجی مارے جا چکے تھے ۔
ایک دوسرا نام پاک فضائیہ کے کمانڈر ایم ایم عالم کا ہے جنہوں نے چالیس سیکنڈ میں پانچ ہنٹر طیارے مار گرائے جو آج بھی گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں درج ہے ان کی اس جرات و مہارت پر انہیں نشان حیدر سے نوازا گیا دین کا یہ سپاہی میدان جہاد میں تو شہید نہ ہوسکا لیکن طویل علالت کے بعد وفات پا گیا۔ اس طرح میجر طفیل شہید اور شبیر شریف کو بھی نشان حیدر سے نوازا گیا کیونکہ انہوں نے بھی میدان کارزار میں جرات و بہادری کے بہت جوہر دکھائے تھے ۔پاکستان کے جس جس علاقے سے دشمن نے حملہ کیا جب وطن باسیوں نے اس کا منہ توڑ جواب دیا ۔
ہڈیارہ سے لے کر کھیم کرن تک
چونڈہ سے لے کر ہلواڑے تک
واہگہ سے لے کر جام نگر تک
قصور سے لے کر اکھنور تک
ہر طرف پاک فوج کی سرخروئی کے پرچم لہرا رہے تھے
20ستمبر کو سلامتی کونسل کے کہنے پر جنگ بندی کا اعلان کر دیا گیا
یہ جنگ 17 روز جاری رہی اس کے خاتمے تک ہندوستان اپنا بھاری جانی اور مالی نقصان کروا چکا تھا ۔
یہ جنگ بھارتی ٹینکوں کا قبرستان ثابت ہوئی ۔120 ٹینک تو لاہور سیکٹر میں ہی تباہ ہو چکے تھے ۔
بھارت کے پانچ سو سولہ ٹینک جب کہ ہمارے 35 ٹینک تباہ ہوئے تھے ۔
بھارت کے سات ہزار فوجی جہنم واصل ہوئے جبکہ پاکستانی 830 جوان شہید ہوئے
بھارت کے 1000فوجیوں کو قیدی بنایا گیا جبکہ پاکستان کے 17 فوجی ہندوستان کے قیدی بنے ۔
بھارت کے 1617 مربع میل کے رقبے پر پاکستان کا قبضہ ہوگیا جبکہ پاکستان کے 447 رقبے پر ہندوستان نے قبضہ کیا اور درجنوں جنگی انڈین جہاز ہمارے ماہر ہوا بازوں نے تباہ کر دیئے اور یوں ہندوستان کے وزیراعظم لال بہادر شاستری کا لاہور میں ناشتہ کرنے کے بعد جم خانوں میں بیٹھ کر جام سے جام ٹکرا نے کا خواب منوں مٹی تلے ملیامیٹ ہو گیا ۔
اس وطن کا ایک ایک ذرا ان شہیدوں کے ایک ایک قطرے کا مقروض ہے۔ جن آزاد فضاؤں میں ہم سانس لے رہے ہیں اس کے ایک ایک جھونکے میں ان کے مقدس لہو کی خوشبو شامل ہے ۔
جنہوں نے اپنا خون دل دے کر گلاب کی طرح اپنے وطن کو سنو ارا اور اپنے تازہ لہو سے اس کی آبیاری کی ہے اور انھوں نے یہ واضح کر دیا ۔
جب بھی گھیرا تجھے ظلمتوں نے کبھی
مشعل جام بنے ہم مقابل رہے
ہم نے مر کر تجھے سرخرو کردیا
ہم بھی تیرے شہیدوں میں شامل رہے
آئیں یوم دفاع کو یاد رکھتے ہوئے ہم اپنے وطن کی پاک مٹی سے وعدہ کریں کہ جب بھی ضرورت پڑے گی ہم بھی اپنے وطن اور اسلام کی خاطر اپنا تن من دھن اس پر نچھاور کر دیں گے ۔اللہ تعالی اس اسلام کے قلعے کو محفوظ اور مستحکم بنا ۓ ۔ہمیں کفار پر فتح و نصرت عطا کرے ۔اسلامی ریاست کا وجود قائم رہے اور ہر طرف اسلام کا بول بالا ہو جائے (آمین)
**********************
یوم دفاع ۔۔۔۔۔۔۔۔داستان شجاعت و عزیمت تحریر عظمی ناصر ہاشمی
