یوم شہادت شہید ملت نواب لیاقت علی خان. تحریر: احسان الحق

0
52

آج سے 70 برس قبل کمپنی باغ راولپنڈی میں پاکستان کے اولین وزیراعظم لیاقت علی خان کو گولیاں مار کر شہید کر دیا گیا. 16 اکتوبر 1951 کو لیاقت علی خان ایک جم غفیر سے خطاب کر رہے تھے جب ان کو دو گولیاں ماری گئیں. آپ شدید زخمی ہو گئے، اکتوبر 1895 میں پیدا ہونے والے نواب لیاقت علی خان اکتوبر میں ہی 1951 کو 56 سال کی عمر میں خالق حقیقی سے جا ملے.

قاتل کو موقع پر ہی پولیس نے مار دیا. حالانکہ قاتل کو آسانی سے زندہ گرفتار کیا جا سکتا تھا مگر پولیس اہلکار انسپکٹر محمد شاہ نے پستول سے یکے بعد دیگرے وار کرتے ہوئے قاتل کو موقع پر ہلاک کر دیا. سی آئی ڈی انسپکٹر شیخ محمد ابرار نے گولیاں چلانے والے اہلکار محمد شاہ سے پستول چھین لیا.

قتل کے تقریباً 9 دن بعد 25 اکتوبر 1951 کو حکومت پاکستان نے تحقیقات کرنے کے لئے ایک کمیشن تشکیل دیا. جس کی سربراہی فیڈرل کورٹ کے جج جسٹس محمد منیر کر رہے تھے اور ساتھ پنجاب کے مالیاتی کمشنر اختر حسین تھے. ہم یہی سمجھتے ہیں کہ حکومت نے شہید ملت لیاقت علی خان کے قتل کی انکوائری کرنے، قتل کی سازش رچانے اور سہولت کاروں کا سراغ لگانے کے لئے تحقیقاتی کمیشن تشکیل دیا، مگر ایسا نہیں تھا. تحقیقاتی کمیشن تشکیل دے کر کہا گیا کہ غلفت کے مرتکب مجرم افسران کا پتہ لگاؤ کہ کس طرح سیکورٹی کے ناقص انتظامات تھے، کس نے یہ انتظامات کئے، سیکورٹی میں کیا کیا نقص تھے، کون کون اور کس طریقے سے غفلت کا مرتکب ہوا وغیرہ وغیرہ. شہادت کے پیچھے چھپے رازوں اور قاتلوں کو ڈھونڈنے کی بجائے ہمارے ادارے اور پولیس والے اپنی اپنی صفائی دینے میں مصروف ہو گئے کہ ہم غفلت کے مرتکب نہیں ہوئے. اس تحقیقاتی کمیٹی نے اپنی رپورٹ 17 اگست 1952 کو پیش کی. چونکہ اس کمیشن کا مقصد یہ نہیں تھا کہ قتل کے پیچھے محرکات اور کرداروں کا سراغ لگایا جائے، اس لئے بیگم رعنا لیاقت اور قوم نے یہ رپورٹ مسترد کر دی.

وزیراعظم نواب لیاقت علی خان کے قتل کی تحقیقات پاکستان کے انسپکٹر جنرل صاحبزادہ اعتزاز الدین بھی کر رہے تھے. 26 اگست 1952 کو وہ ہوائی جہاز کے ذریعے کراچی سے پشاور جا رہے تھے، ان کے ہمراہ تحقیقاتی رپورٹ بھی تھیں جس میں اہم شواہد موجود تھے. طیارہ جب کھیوڑہ کے مقام پر پہنچا تو حادثے کا شکار ہو گیا. انسپکٹر جنرل صاحبزادہ اعتزاز کی ہلاکت کے ساتھ ساتھ اہم شواہد بھی جل کر راکھ ہو گئے.

دباؤ بڑھنے کی وجہ سے حکومت نے سکاٹ لینڈ یارڈ کے یورین کی خدمات بھی حاصل کیں، جس نے حکومت سے تحقیقات کرنے کے بدلے 10 ہزار پاؤنڈ اجرت لی. یورین نے 28 نومبر 1954 سے 16 جون 1955 تک لیاقت علی خان قتل کی تفتیش کی. 25 جون 1955 کو یورین نے اپنی تحقیقاتی اور تفتیشی رپورٹ پیش کی جس میں اس نے کہا کہ قاتل کا قتل کرنے والا ذاتی فعل تھا.

دریں اثناء محکمہ پولیس نے سی آئی ڈی انسپکٹر شیخ ابرار احمد کو قتل کی تفتیش پر لگا دیا. یہ وہی شیخ ابرار ہیں جو جلسہ گاہ میں موجود تھے. انہوں نے پولیس اہلکار سے پستول چھینا تھا جو قاتل سید اکبر کو گولیاں مار رہا تھا. شیخ ابرار نے خود نوشت سوانح "نقوش زندگی” میں اس تفتیش کا ذکر تفصیل سے کیا ہے. شیخ ابرار نے بھی قتل کی وجہ قاتل کا ذاتی فعل قرار دیا.

وزیراعظم لیاقت علی خان کے قاتل کے متعلق امریکی وزیر خارجہ کے لوگ کہتے ہیں کہ قاتل کا نام سید اکبر خان ولد ببرک خان تھا، اکبر نے اپنے بھائی زمرک کے ساتھ ملکر 1944 میں افغان حکومت کے خلاف اعلان بغاوت کیا. سرکاری فورسز سے شکست کھانے کے بعد دونوں بھائی ادھر ادھر بھٹکتے رہے اور آخر کار دونوں نے خود کو برطانوی فرنٹیر کور کے سامنے پیش کر دیا. دونوں کو ایبٹ آباد میں نظر بند کر دیا گیا اور تنخواہ مقرر کر دی گئی کیوں کہ دونوں بھائی برطانیہ کے لئے اجرت پر کام کرنے لگ گئے. یاد رہے اس وقت ایبٹ آباد برطانوی ہندوستان کا ایبٹ آباد تھا. پاکستان کے مطابق سید اکبر افغانی تھا، وہ افغانستان سے یبٹ آباد آیا، کچھ دن قیام کرنے کے بعد وہ ایبٹ آباد سے راولپنڈی پہنچا.

وینکٹ رامانی اپنی کتاب "پاکستان میں امریکہ کا کردار” میں لکھتے ہیں کہ امریکی صدر ہنری ٹرومین کو امریکی عوام اور کانگریس سے شدید مذمت اور دباؤ کا سامنا تھا. کیوں کہ کوریا میں امریکیوں کو سخت پریشانی کا سامنا تھا. امریکی عوام سمجھتے تھے کہ کوریا میں امریکی ہلاکتوں کی ذمہ دار ٹرومین حکومت ہے. کوریا جنگ میں پاکستان کا تعاون حاصل کرنے کے لئے اس وقت کے امریکی وزیر خارجہ ڈین ایچی سن نے پاکستان میں امریکی سفیر ایورا وارن کو کچھ انتہائی اہم اور پوشید ہدایات جاری کرتے ہوئے وزیراعظم لیاقت علی خان سے ملاقات کرنے کو کہا.

11 مئی 1951 کو امریکی سفیر نے لیاقت علی خان سے ملاقات کی اور کوریا جنگ میں ٹھوس مدد کرنے کا کہا اور یہ بھی کہا کہ اگر آپ تعاون نہیں کرتے تو پھر اس کے نتیجے میں اجتماعی سلامتی کا نظام ختم ہو سکتا ہے. پاکستان سیمت تمام نئے یا ترقی پزیر ممالک کو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ کسی دوسرے ملک کی طرف سے پیش قدمی یا کسی قسم کی جارحیت کے دفاع کے لئے اقوام متحدہ کی ضرورت پڑ سکتی ہے. یہ واضح طور پر یا ممکنہ طور پر سفیر کا دھمکی آمیز انداز تھا.

وزیراعظم لیاقت علی خان ایک زیرک سیاست دان اور محب وطن حکمراں تھے. وہ تمام بات سننے کے بعد فرمانے لگے کہ اگر پاکستان کوریا کی جنگی مہم میں امریکہ کا ساتھ دے تو کیا

1: امریکہ مسئلہ کشمیر حل کروائے گا؟

2: نہرو مقبوضہ کشمیر میں انتخابات کروانے کا سوچ رہے ہیں، کیا امریکہ انتخابات رکوا پائے گا؟

3: افغانی حکومت اور کچھ افغان نواز اور قوم پرست قبائل پختونستان مہم چلائے ہوئے ہیں، کیا امریکہ پختونستان کے شوشہ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم کر دے گا؟

یہ وہ چیدہ چیدہ شرائط تھیں جو وزیراعظم لیاقت علی خان نے امریکی سفیر ایورا وارن کے سامنے رکھیں. لیاقت علی خان جانتے تھے کہ یہی موقع ہے امریکہ سے شرائط کی صورت میں اپنے مطالبات منوانے کا. امریکی وزیر خارجہ ڈین ایچی سن لیاقت علی خان سے یہی امید رکھتے تھے، اسی لئے سفیر ایورا وارن کو پیشگی سمجھا دیا تھا کہ اگر پاکستان کی طرف سے ایسی شرائط رکھی جائیں تو صاف صاف انکار کر دینا. توقع کے مطابق لیاقت علی خان نے وہی شرائط رکھ دیں اور ایورا وارن نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ ایسا کرنے سے مسائل جنم لیں گے.

کچھ برس قبل امریکہ کے نیشنل آرکائیو ڈیپارٹمنٹ نے کچھ دستاویزات کو عوام کی پہنچ میں لاتے ہوئے پبلک کیں ان میں سے ایک ایسا ٹیلی گرام بھی ملا جس کی مدد سے لیاقت علی خان کے قتل کا سراغ لگانے میں مدد مل سکتی ہے. 7 ستمبر 1951 امریکی وزیر خارجہ ایچی سن کو ایک مراسلہ روانہ کیا گیا جس کے مطابق اسی شام مطلب 7 ستمبر 1951 کو وزیر خزانہ غلام محمد نے امریکی سفیر سے چائے پر ملاقات کی اور سفیر سے درخواست کی کہ وہ مندرجہ ذیل پیغام امریکی وزیر خارجہ تک پہنچائیں.

"اگلے ہفتے ظفراللہ امریکہ آ رہے ہیں، مہربانی کرکے آپ ان سے مل لیں اور مجھے امید ہے کہ آپ اپنے گھر پر ملاقات کا وقت نکالیں گے. اور گزارش کی جاتی ہے کہ آپ ظفراللہ کو ٹرومین سے بھی ملوا دیں گے”. خفیہ ٹیلی گرام کے مطابق غلام محمد کہتے ہیں کہ وہ دسمبر میں تین ہفتوں کے لئے امریکہ آنا چاہتے ہیں اور آپ سے تفصیلی بات چیت کرنے کے خواہاں ہیں. سفیر نے اپنے مراسلے میں مزید لکھا کہ غلام محمد نے کہا کہ میں پاکستان اور مسلم دنیا کو کمیونزم کے خلاف لڑنے کے لئے منظم کرنے کا مقصد رکھتا ہوں. میں اور میرے دو رفیق خاص بھارت کے ساتھ جنگ نہیں ہونے دیں گے. ایک ملک کا وزیر خزانہ ایک سفیر سے اس طرح کی باتیں اور امریکی وزیر خارجہ کے لئے اہم ترین پیغام کیوں بھجوا رہا تھا، قوی امکان ہے کہ اس کی وجہ یہ ہو کہ 27 جولائی 1951 کو عوام کے ساتھ خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم لیاقت علی خان نے بھارت کے لئے مکا لہرایا تھا. اس مکے نے بھارت میں تشویش اور پریشانی پیدا کر دی تھی، ہو سکتا ہے حالات معمول پر لانے اور بہتر کرنے کے لئے غلام محمد نے یہ کہا ہو کہ وہ کبھی بھی بھارت کے ساتھ پاکستان کی جنگ نہیں ہونے دیں گے. اس ملاقات اور بیان کی دوسری وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ غلام محمد ان دنوں علیل تھے اور آہستہ آہستہ صحت یاب ہو رہے تھے، ان دنوں یہ خبر تھی کہ وزیراعظم لیاقت علی خان غلام محمد اور گورمانی کو ان کے عہدوں سے ہٹانے والے ہیں. لیاقت علی خان سردار عبدالرب نشتر کو نائب وزیراعظم اور نواب محمد اسماعیل کو پنجاب کا گورنر بنانے والے ہیں.

امریکی سفیر سے غلام محمد کی ملاقات 7 ستمبر کو ہوئی، اس ملاقات سے 12 دن قبل مطلب 25 اگست 1951 کو لیاقت علی خان امریکی وزیر خارجہ ایچی سن کے نام خط لکھ کر پاکستان کے لئے فوجی اور دفاعی سازوسامان کی درخواست کر چکے تھے. اس اہم خط کو ڈاک کے ذریعے بھیجنا مناسب نہ سمجھا گیا بلکہ اس خط کو سیکرٹری خارجہ اکرام اللہ کے ہاتھ بھیجنا زیادہ محفوظ اور مناسب سمجھا گیا. جو خط کچھ دنوں میں پہنچ جانا چاہئے تھا مگر وہ خط پہنچا 18 اکتوبر کو. لیاقت علی خان کی شہادت کے دو دن بعد وہ خط امریکی وزیر خارجہ تک پہنچایا گیا. 

بھوپال سے شائع ہونے والے اردو روزنامہ "ندیم” نے ایک مضمون لکھا جس کے مطابق برطانیہ اور امریکا نے پاکستان پر دباؤ ڈالا کہ وہ ایران مسئلہ پر تعاون کریں. امریکہ نے دباؤ ڈالتے ہوئے پاکستان کو کہا کہ وہ اپنا اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے ایران کو کہیں کہ وہ تیل کے کنوئیں امریکہ کے حوالے کر دے. لیاقت علی خان نے واضح انداز میں ایسا کرنے سے انکار کر دیا. جس کے ردعمل کے طور پر امریکہ نے دھمکی دی وہ مسئلہ کشمیر پر پاکستان کا ساتھ نہیں دے گا. لیاقت علی خان نے کہا کہ ہم نے اپنی مدد آپ کے تحت آدھا کشمیر لے لیا ہے اور باقی ماندہ بھی لے لیں گے، آپ اپنا تعاون اپنے پاس رکھیں. اس ساری صورتحال کے بعد امریکہ نے پاکستان میں کسی سہولت کار کی تلاش شروع کر دی. امریکہ کو پاکستان سے کوئی سہولت کار یا ایسا بندہ نہ مل سکا تو اس نے افغانستان سے رابطہ کیا.امریکہ نے پشتون راہنماؤں سے رابطہ کیا جو پاکستان کو توڑنا چاہتے تھے اور پختونستان بنانا چاہتے تھے.

روزنامہ ندیم کے مطابق امریکہ نے کابل میں اپنے سفارتخانے سے رابطہ کیا. سفارتخانے نے پاکستان مخالف پشتونوں سے رابطہ کیا جو پختونستان بنانا چاہتے تھے. امریکا نے ان سے وعدہ کیا کہ اگر وہ لیاقت علی خان کو قتل کر دیں تو 1952 تک پختونستان بن جائے گا. مختصر، سید اکبر خان کو لیاقت علی خان کے قتل کے لئے تیار کرکے اس کی تربیت شروع کی دی گئی. افغانستان سے اس کو ایبٹ آباد پہنچایا گیا، وہاں سے وہ راولپنڈی آیا. وہاں اس نے وزیراعظم لیاقت علی خان کو دوران تقریر سینے پر دو گولیاں ماریں جن سے وہ شدید زخمی ہوگئے اور انتقال فرما گئے.  لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد جو مخصوص قسم کے کارتوس ملے وہ صرف امریکی فوج کے اعلی اور خفیہ لوگ استعمال کرتے تھے. اس وقت ایسے کارتوسوں کا عام مارکیٹ میں ملنا ناممکن تھا. ندیم کے مضمون کے مطابق جب گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین نے بیگم رعنا لیاقت کو قتل کی خبر دی اور تعزیت کی تو اس سے 3 سے 4 منٹ پہلے امریکی سفیر وارن بیگم رعنا لیاقت کو قتل کی اطلاع دے چکا تھا. ان تمام عوامل اور شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ لیاقت علی خان کے قتل کے پیچھے امریکی ہاتھ ہے.

30 اکتوبر کو روزنامہ ندیم کے اس مضمون کی نقل بھارت نے خفیہ طریقے سے کراچی میں امریکی سفارتخانے کو بھیج دی. سفارت خانے نے اگلے روز یعنی 31 اکتوبر کو امریکی وزارت خارجہ کو یہ کہتے ہوئے مضمون کی نقل ارسال کی کہ وہ دہلی سفارت خانے کو ہدایات دیں کہ اس مضمون کو نظرانداز کر دیا جائے کیوں کہ اس میں متن خودساختہ ہے اور اس اخبار کو اتنی اہمیت نہ دی جائے.

بیگم رعنا لیاقت علی خان کو خاموش کروانے کے لئے ہالینڈ میں پاکستان کا سفیر بنا کر بھیج دیا گیا. ہالینڈ میں انہوں نے اپنے شوہر وزیراعظم لیاقت علی خان کے قتل پر 6 سوال پوچھے.

16 اکتوبر 1954 کو انہوں نے جاری کردہ ایک بیان میں کچھ سوالات پوچھے جو انھوں نے ہالینڈ کے دارالحکومت ہیگ سے جاری کیا تھا۔

انھوں نے مندرجہ ذیل چھ سوالات اٹھائے تھے:

۱: ایسے موقع پر جب لیاقت علی خان ایک اہم بیان دینے والے تھے اور لیاقت علی خان اپنی مقبولیت اور شہرت کی انتہاء پر تھے، اسی وقت انکو کیوں قتل کردیا گیا؟

۲: قاتل کو بے بس ہو چکا تھا، اسکو آسانی سے زندہ گرفتار کیا جا سکتا تھا مگر موقع پر کیوں قتل کر دیا گیا؟

۳:  قاتل کو ہلاک کرنے والے پولیس اہلکار کو سزا دینے کی بجائے ترقی کیوں دی گئی؟

۴: ملک میں کچھ اہم اور طاقتور لوگ کیوں لیاقت علی خان کو اپنے راستے سے ہٹانا چاہتے تھے؟

۵: قائداعظمؒ محمد علی جناح اور لیاقت علی خان کے ناموں کو بعض اہم معاملات میں کیوں نظر انداز کیا جا رہا ہے؟

۶: ان سب سوالوں کے جواب کیوں نہیں دئیے جا رہے؟

راقم الحروف کا ذاتی خیال ہے کہ اگر امریکی خفیہ دستاویزات اور اردو روزنامہ "ندیم” کے مضمون کو درست مان لیا جائے تو قاتل اور قتل کی سازش رچانے والوں اور پاکستان میں مبینہ طور پر غفلت برتنے والوں کا پتہ لگایا جا سکتا ہے.

@mian_ihsaan

Leave a reply