زکوٰۃ، فرضیت اور مختصر احکام : از قلم:حافظہ قندیل تبسم

زکوٰۃ، فرضیت اور مختصر احکام

حافظہ قندیل تبسم

اسلام ایک آفاقی مذہب ہے جو اپنے پیروکاروں کو زندگی کے ہر شعبہ میں کامل رہنمائی فراہم کرتا ہے اور زندگی گزارنے کا مثالی اور معیاری نصب العین متعین کرتا ہے۔ انسانی زندگی ہمہ جہت پہلوؤں سے مزین ہے۔ انہیں پہلوؤں میں معاشیات ہمیشہ سے ایک اہم عمرانی پہلو رہا ہے اور انسان کی زندگی کا مرکز و محور بھی۔ مالی فائدہ اور کثرت شروع سے ہی انسان کا مطمع نظر رہا ہے۔
لغت میں ’’زکوٰۃ‘‘ کا معنی پاکیزگی اور اضافہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان ہے کہ زکوٰۃ کی ادائیگی سے یہ دونوں فوائد بجا طور پر حاصل ہوتے ہیں۔ مال پاکیزہ بھی ہو جاتا ہے اور با برکت بھی۔

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں زکوٰۃ ادا کرنے والوں کے اجر کو بیان کیا ہے۔

[اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوۃَ لَھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّہِم وَلَا خَوْفٌ عَلَيْہِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ ] (البقرۃ : 277)

ترجمہ: بے شک جو لوگ ایمان کے ساتھ (سنت کے مطابق) نیک کام کرتے ہیں، نمازوں کو قائم کرتے ہیں اور زکوٰة ادا کرتے ہیں، ان کا اجر ان کے رب تعالیٰ کے پاس ہے، ان پر نہ تو کوئی خوف ہے، نہ اداسی اور غم۔

زکوٰۃ ارکانِ اسلام کا اہم رکن اور دین متین کا جزو عظیم ہے۔ پیغمبر اسلام ﷺ نے دین اسلام کی بنیادی تعلیمات بیان کرتے ہوئے فرمایا:

” بُنِيَ الإِسْلاَمُ عَلَى خَمْسٍ: شَهَادَةِ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، وَإِقَامِ الصَّلاَةِ، وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ، وَالحَجِّ، وَصَوْمِ رَمَضَانَ "(صحیح بخاری: 8،صحیح مسلم: 111)

اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے: گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں، نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ ادا کرنا اور حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔

شریعت مطہرہ نے ملت اسلامیہ کے مالدار لوگوں کے مال میں مساکین کو بھی حقدار ٹھہرایا اور ان کی کفالت کا خوب خیال رکھا جو ایک متوازن معاشرے کی بنیاد فراہم کرنے میں معاون و مددگار ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام میں زکوٰۃ کے آٹھ مصارف بیان فرمائے ہیں۔

سورۃ التوبۃ آیت 60 میں اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ کے مستحق افراد کا ذکر فرمایا ہے جس کی مختصر تفصیل حسب ذیل ہے:

1۔ فقراء :
فقیر وہ ہے جومحتاج اور ضرورت مند ہو،جس کے پاس درہم و دینار ،روپیہ و پیسہ ،گھر بار نہ ہو اور قلاش اور خستہ حال ہو۔

2۔ مسکین:
مسکین وہ ہے جس کے پاس ضروریات زندگی کے لیے مال اس قدر کم ہو کہ کفایت نہ کرے۔ اور اگرچہ ایسے شخص کا گھر بار اور کاروبار بھی ہومگر پھر بھی وہ باوقار زندگی کے لئے نا کافی وسائل رکھتا ہو۔

3۔ عاملین زکوٰۃ:
وہ حکام جو زکوٰۃ کی وصولی اور اس کے حساب کتاب کے ذمہ دار ہیں۔

4۔تالیف قلب:
ایسے غیر مسلم کوزکوٰۃ میں سے مال دیا جاسکتا ہے جو اسلام کے قریب آ سکتا ہو اور جس سے یہ توقع ہو کہ وہ مال لے کرمسلمان ہوجائے گا اور اہل ایمان کے دفاع میں تعاون کرےگا اس کے علاوہ نو مسلم کو بھی اسلام پرپختہ کرنے کےلیے زکوٰۃ میں سے مال دیا جا سکتا ہے۔

5۔ گردنیں آزاد کرانا:
غلاموں کی آزادی یا قیدیوں کی رہائی کے لیے جو رہائی کے اسباب نہیں رکھتے۔

6۔ ادائے قرض:
مقروض لوگوں کوقرض کے بوجھ سے نجات دلانا، مقروض غریب ہو، فقیر ہو یا بے روزگار ہو اور اپنا قرض ادا کرنے سے قاصر ہو مالِ زکوٰۃ سے اس کاقرض ادا کیا جا سکتا ہے۔

7۔ فی سبیل اللہ:
اس سے جہاد کی جملہ ضرورتوں کو پورا کیا جا سکتا ہے، اسلحہ خریدا جا سکتا ہے، زیر تربیت عسکری مجاہدین کی خوراک لباس، علاج، معالجہ وغیرہ پر زکوٰۃ کو خرچ کیاجاسکتا ہے۔

8۔ مسافر:
زکوٰۃ کی رقم کاحقدار صرف غریب مسافر ہی نہیں بلکہ غنی اور دولت مند شخص بھی اگردوران سفر زادِ راہ اور دیگر سفری ضروریات کا محتاج ہوجائے تو اس پر بھی زکوٰۃ کی رقم خرچ کی جاسکتی ہے تاکہ وہ باوقار طور پر منزل تک پہنچ سکے۔

اسی طرح بعض لوگوں کو مالِ زکوٰۃ نہیں دیا جا سکتا۔ ایسے افراد کی مختصر تفصیل حسب ذیل ہے۔

1۔ نبی اکرم ﷺ کی آل کےلیے زکوٰۃ حلال نہیں۔
2۔ غیرمسلموں کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں۔
3۔ غنی اور صحت مند آدمی کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں۔
4۔ والدین، اولاد اور بیوی کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں۔

زکوٰۃ کی فرضیت کے لیے صاحب نصاب ہونا ضروری ہے۔ مختلف اموال میں نصاب کی تفصیل یوں ہے۔
1۔ سونے کا نصاب ساڑھے سات تولہ ہے۔ یعنی جس کے پاس سال بھر ساڑھے سات تولہ سونا کے زیورات رہے ہوں اس پر زکوٰۃ کی ادائیگی لازم ہے۔
2۔ چاندی کانصاب ساڑھے باون تولہ ہے۔
3۔سونے اور چاندی کے زیراستعمال زیورات کو بھی شامل نصاب کیا جائے گا۔
4۔مال تجارت، اور اس کا نصاب ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابرہے۔

زکوٰۃ کی شرح:

بلحاظ وزن یابلحاظ قیمت مندرجہ بالاپراڑھائی فیصد یا چالیسواں حصہ (1/40) ہے اور یہ ایک سال گزر جانے پر ادا کی جائے گی۔

انسان اگر سوچے کہ وہ اس دنیا میں خالی ہاتھ آیا تھا اور محتاج تھا۔ اس کا وجود اس مالک عظیم کی عطاء ہے اور اسی نے انسان کے لیے اس دنیا میں ہر طرح کی سہولت، نگہداشت کرنے والے شفیق والدین عطا کیے اور بنا مانگے اس کی تمام ضروریات بہم پہنچائیں اور اس کو مال و ثروت سے بھی نوازا۔ اسی دنیا میں اس جیسے ہی کتنے بندے ہیں جن کو وہ آسائش اور کشادگی دستیاب نہیں اور کتنے ہی بنیادی ضروریات سے بھی محروم ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ نے ان کا خیال کرنا اس پر لازم کر دیا ہے تو اسے چاہیے کہ ہوس مال و زر میں پڑ کر اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ ڈالے بلکہ اللہ کے دیے مال کو اللہ ہی کی راہ میں خرچ کر کے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کی جستجو کرے۔ یہی معراج انسانیت بھی ہے اور تقاضائے وفا بھی۔

Comments are closed.