زمین

زمین کروی(سفیریکل) شکل میں گردش کر رہی ہے
قرآن کہتا ہے کہ جب دن اور رات ایک دوسرے کے اوپر آکر ایک دوسرے کو ڈھانپتے ہیں تو یہ ایک گیند(سفیئر) بناتے ہیں،

Quran 39:5

"اس نے آسمانوں اور زمین کو حکمت سے پیدا کیا، وہ رات کو دن پر لپیٹ دیتا ہے اور دن کو رات پر لپیٹ دیتا ہے، اور اُس نے سورج اور چاند کو تابع کر دیا ہے، ہر ایک وقت مقرر تک چل رہے ہیں، خبردار! وہی غالب بخشنے والا
ہے۔”

عربی لفظ “Kura كرة” کا مطلب ہے گیند،
اور قرآن نے اسکا فعل “Yukawer يُكَوِّرُ” استعمال کیا ہے جسکا مطلب ہے گیند بنانا ہے۔
قرآن کہتا ہے کہ جن رات اور دن ایک دوسرے کو ڈھانپتے ہیں تو ایک گیند(سفئیر) بناتے ہیں۔
پھر قرآن کہتا ہے کہ
“سب چل رہے ہیں(Kullon Yajree كل يجري)”
یہاں قرآن اس بات کی طرف کہ “سب چل رہے ہیں” اشارہ کر رہا ہے کہ صرف چاند اور سورج ہی نہیں چل رہے بلکہ زمین بھی چل رہی ہے۔
عربی زبان میں سنگولر(ایک)، بائنری(دو)، اور پلورل(تین یا اس سے زیادہ) ان تینوں میں فرق ہے۔ اگر یہاں پہ بائنری(یعنی صرف دو چیزیں چاند اور سورج کے گھومنے) کی بات ہو رہی ہوتی تو یہاں “Kulahuma Yajreean كلاهما يجريان” کے الفاظ استعمال ہوتے جبکہ یہاں قرآن نے کہا “Kullon yajree كل يجري” یعنی پلورل(تین یا تین سے زیادہ) کی بات کر رہا ہے۔
جیسا کہ چاند اور سورج دو چیزیں ہیں لیکن قرآن تین یا تین سے زیادہ کی بات کر رہا ہے اور وہ تین چاند، سوج اور زمین ہیں۔
چودہ سو سال پہلے ایک غیر معمولی شخص کیسے جان سکتا ہے کہ زمین، سورج اور چاند یہ سب حرکت میں ہیں؟؟
قرآن کہتا ہے کہ زمین کا ڈائیا میٹر(قطر) ہے
(ڈائیا میٹر(قطر) ریڈیئس سے دوگنا ہوتا ہے)

Quran 55:33

اے جنوں اور انسانوں کے گروہ! اگر تم آسمانوں اور زمین کے اقطاروں سے باہر نکل سکتے ہو تو نکل جاؤ، تم بغیر زور کے نہ نکل سکو گے (اور وہ تم میں ہے نہیں)۔

ڈائیامیٹر کو عربی میں قطر کہتے ہیں، اور اسکا پلورل(تین یا تین سے زیادہ) اقطار ہے، ریڈیئس(radius) اور ڈائیامیٹر(Diameter) سرکلز(circles) یا سفئیرز(spheres) کی پراپرٹیز ہیں، یہ پچھلی آیت سے واضح ہوگیا کہ یہ رات اور دن کیسے زمین کو گیند(سفئیر) بناتے ہیں ایک دوسرے کو ڈھانپتے ہوئے۔[Yukawer يُكَوِّرُ]

چودہ سو سال پہلے ایک غیر معمولی شخص کیسے جان سکتا ہے کہ زمین کا ڈائیامیٹر(قطر) موجود ہے؟؟؟؟؟

"Sateh سطح” کو عربی میں سرفیس(سطح) کہتے ہیں جیسا کہ اس سطح کی کوئی بھی شیپ(شکل) ہو سکتی ہے۔ چاند کی سطح کا مطلب “Sateh Al-Kamar سطح القمر ” ہوتا ہے اور یہ سفئیر(کرہ) کی شیپ(شکل) میں ہے۔ یہ کاٹھی کی شکل میں بھی ہو سکتا ہے۔

Reference:- Wikipedia,سطح سرجی، 2019

السطح السرجي (بالإنجليزية: Saddle surface) هو سطح أملس يحتوي على نقطة مقعرة أو أكثر.أتت التسمية من شبهه بسرج الفرس والذي ينحني صعودا وهبوطا.

“کاٹھی کی سطح ایک ہموار سطح ہے جس میں ایک یا ایک سے زیادہ مقاطعہ(کنکیو) پوائنٹس ہوتے ہیں، اسکی مثال گھوڑے کی کاٹھی سے ملتی ہے جو اوپر اور نیچے جھکتی ہے۔”

یہ کاٹھی کی شیپ “Sateh سطح” کی ایک قسم ہے۔ یہ کوئی بھی شکل ہوسکتی ہے لیکن بدقسمتی سے “Sateh سطح” کا مطلب کسی بھی صورت میں فلیٹ(ہموار) نہیں ہے۔ کیونکہ عربی میں ہموار سطح کو “musattah مسطح” کہتے ہیں جو کہ یہ پورے قرآن میں لفظ نہیں ہے۔

Quran 50:7

اور ہم نے زمین کو بچھا دیا اور اس میں مضبوط پہاڑ ڈال دیے اور اس میں ہر قسم کی خوشنما چیزیں اگائیں۔

قرآن کہتا ہے کہ خدا نے زمین پھیلا دی، یعنی سطح کے رقبے میں اضافہ کیا۔ ہمارا نظام شمسی 4.57 بلین سال پرانا ہے۔ ہماری زمین سورج اور باقی ہمسائے سیاروں کے ساتھ فوری طور پر درست ہونا شروع ہوگئی جو کہ 4.57 بلین سال پہلے ایسا ہوا ہے۔ جیسا کہ درستگی کے عمل کے دوران زمین کا ریڈیئس بے ساختہ 6400 کلومیٹرز نہیں تھا بلکہ کچھ کلومیٹرز زیادہ سے آغاز ہوا اور آہستہ آہستہ ریڈئیس بڑھتا گیا۔
مگر سطح کے رقبے کا فنکشن ریڈیئس ہے( surface area = 4πR2), یعنی جیسے جیسے ریڈیئس بڑھتا ہے تو ساتھ سطح کا رقبہ بھی بڑھتا چلا جاتا ہے۔ تو قرآن نے سطح کے حصے میں اضافے کو صحیح طریقے سے بیان کیا ہے۔(اور یہ بائبل کے برخلاف ہے جہاں زمین کی تخلیق بےساختہ تھی)

چودہ سو سال پہلے ایک غیر معمولی شخص کیسے جان سکتا ہے کہ زمین سفئیر شکل میں گھومتی ہے؟؟؟؟؟

بقلم سلطان سكندر!!!

Shares: