زمین کو سانس دو. تحریر : زہراء مرزا

0
45

تحقیق یہ بتاتی ہے کہ ایک درخت 30 بچوں کو آکسیجن فراہم کرتا ہے. ایک بچے کو اگر مصنوعی طریقے سے آکسیجن فراہم کرنے پڑے تو یہ 5000 روپے کی آکسیجن یومیہ درکار ہے. پاکستان میں اوسطاً عمر 60 سال ہے.
مختصر کہیے تو گیارہ کڑوڑ روپے ایک شخص کے زندہ رہنے کے لیے درکار ہوں.

زاویہ نظر بدلیے….
سب سے پہلے تو اس بات پر اپنے خالق کا شکر ادا کریں کہ کتنی مہنگی چیز اللہ تعالیٰ نے ہمیں مفت عطا کر رکھی ہے. اور ہم سے اس چیز کا نہ تو کوئی ٹیکس وصول کیا جاتا ہے اور نہ ہی ہماری تمام تر سرکشوں کے باوجود اس نعمت (آکسیجن) کے استعمال سے روکا جاتا ہے.

خالق دو جہاں کے شکر کے بعد سوچیے…!!
آپ ارب پتی بھی ہوتے تو کیا پوری زندگی میں تین ارب 30 کڑوڑ روپے صدقہ کر سکتے تھے؟؟
ہرگز نہیں… لیکن اگر آپ کے پاس کچھ بھی نہیں تو بھی آپ اس سے کئی گناہ زیادہ صدقہ کر سکتے ہیں. آپ سب ارادہ کر لیں کہ ہم اس معاشرے کو ہر سال ایک پودا دیں گے جو بڑا ہوکر ایک درخت بن جائے گا تو آپکی عمر اگر ساٹھ سال ہوئی تو ہر سال 3 ارب 30 لاکھ روپے صدقہ کا ثواب آپکو ملے گا. اپنی زندگی میں 2 کھرب روپے کا صدقہ کرنے والا شخص آپ نے تو شاید تمام عمر سوچا تک نہ ہو.؟؟

جی اتنا بڑا صدقہ..!
ایک درخت لگائیے…. اور دنیا کو سانس فراہم کیجیے….
ابھی تک تو میں نے فقط ایک آکسیجن فراہم کرنے والے درخت کے متعلق بتایا ہے؟
اگر آپ نے ایسا درخت لگایا جس نے لوگوں کو دھوپ میں سایہ دیا، بھوک میں پھل دیا، پرندو‌ں کو گھر دیا، زمین کو بارش دی تو آپ محسوس کریں کہ آپ معاشرے کے ساتھ کتنی بڑی نیکی کر رہے ہیں؟ آپ اگر ایسا کرتے ہیں تو یقیناً آپکو اپنے انسان ہونے پر ناز ہوگا. کیونکہ پوری کائنات میں آپ واحد مخلوق ہیں جسے اللہ نے یہ شعور دیا ہے کہ وہ درخت لگائیں. دنیا کو اس وقت گلوبل وارمنگ کا جس طرح سامنا ہے یہ میں اور آپ فقط سوچ ہی سکتے ہیں؟ ایمازون کے جنگلات کی آتشزدگی ہو یا افریکہ کے جنگلات میں لگنے والی آگ. کہیں آبادیوں کے بڑھاؤ کی خاطر کٹنے والے جنگلات ہوں. یا جلانے اور آلات بنانے میں ضرورت سے زائد استعمال ہونے والی لکڑی..
یہ سب ہی گلوبل وارمنگ کی وجوہات میں سے ہیں. فیکٹریوں اور گاڑیوں میں استعمال ہونے والے ایندھن نے جہاں فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ اور متھین گیس کی مقدار کو بڑھاوا دیا ہے. وہیں جنگلات اور درختوں کی کٹائی نے آکسیجن کو مزید کم کر دیا.

کیا آپ دیکھتے نہیں کہ میٹرو سٹیز میں رہنے والے افراد میں بیماریوں کا رجحان دیہی علاقوں کی نسبت زیادہ ہے.
دمہ، سکن الرجی،ہیپاٹائٹس اور کینسر جیسی بیماریوں میں شدت سے اضافہ ہو رہا ہے.
گرمیوں میں ہیٹ سٹوک اور سردیوں میں سموگ کا راج یہ تمام کے تمام مضمرات یا تو انڈسٹری کے بے جا پھیلاؤ سے منسلک ہیں یا پھر درختوں کی بے وجہ کٹائی سے. درختوں میں اضافہ نہ صرف گلوبل وارمنگ کو کم کرتا ہے ساتھ ہی ساتھ سموگ اور ہیٹ اسٹوک سے بھی محفوظ رکھتا ہے.

یاد رکھیے جتنے درخت کم ہونگے اتنی ہی سانسیں کم ہونگی. لہٰذا اگر سانس کو بچانا ہے تو ایک پودا لگانا ہے. درخت لگائیے اور دور جدید میں سب سے مہنگا صدقہ کیجیے…! کیونکہ فرمان پیغمبر اسلام صل اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے کہ انسان کی جان بچانا انسانیت بچانے کے مترادف ہے.

@zaramiirza

Leave a reply