ذرا کان لگا کر سننے کی دیر ہے. تحریر:تابندہ سراج

tabidna

ہرن مینار دیکھنے کی خواہش بچپن سے تھی۔۔۔ کبھی موقع ملا نہ فرصت اور جب یہ دونوں ملے تو یاد نہ رہا۔۔۔ سردیوں کے ابتدائی خوش گوار ترین دنوں میں سیر و تفریح کا شوق کچھ بڑھ جاتا ہے۔۔۔ یونہی بیٹھے بٹھائے فیملی سے ہرن مینار کا پروگرام بنانے کو کہا اور سب نے لبیک کہ دیا۔۔۔
یکم دسمبر کے روشن صبح تین گاڑیوں کا قافلہ لاہور سے شیخوپورہ روانہ ہوا۔۔۔ راستے کے کھیت کھلیان اور فصلوں کی آب و تاب نے سفر کا لطف دوبالا کر دیا۔۔۔ اتوار کا دن اور صبح کا وقت تھا تو ٹریفک کا زور قدرے کم تھا۔۔۔ ٹکٹیں لے کر قدیم تاریخی عمارت کے احاطے میں داخل ہوئے۔۔۔ مرکزی دروازے سے مینار تک کے فاصلے میں وسیع و عریض باغات ہیں۔۔کچھ آگے ایک بڑا تالاب ہے ، جہاں کشتی رانی کی سہولت ہے۔۔ صبح میں لوگوں کا رش کم تھا ، جو سہ پہر واپسی تک بہت بڑھ گیا۔۔ ہرن مینار کی سیڑھیوں اور تالاب کے وسط میں موجود بارہ دری کو مقفل کیا ہوا تھا ۔۔۔ مینار بہت خستہ حالی کا شکار ہے۔۔۔ ایک پرانا کنواں بھی مقفل تھا ۔۔۔ بادشاہ کے لاڈلے ہرن کی یاد میں تعمیر کردہ مینار کے ساتھ ہی ایک بڑے احاطے میں ، کچھ چلتے پھرتے دوڑتے بھاگتے ہرن بھی دکھائی دے رہے تھے۔۔۔۔ کینٹین بھی مغلیہ طرز تعمیر سے متاثر ہو کر بنائی گئی ہے۔۔۔

قدیم تاریخی عمارتوں کو دیکھنے سے ایک الگ ہی طرح کا احساس دل و دماغ کو جکڑ لیتا ہے۔۔ کچھ دیر کو جیسے نظریں اور دھیان ساکت ہو جاتا ہے۔۔ تخیل اس دور کے شکوہ کی تصویر کشی کرنے لگتا ہے۔۔۔ حال اور ماضی کا ربط اور زمانی فاصلہ کسی فلم کی طرح چلتا محسوس ہوتا ہے ۔۔ ایسی عمارتیں خود بولتی ہیں اور اپنی کہانی سنانے لگتی ہیں ۔۔۔ بس ذرا کان لگا کر سننے کی دیر ہے۔۔۔

Comments are closed.