میرے ہاتھ میں زہر کا پیالہ تھا۔ میں نے دھندلی نگاہوں سے اردگرد دیکھا، تو چند لوگ میرے آس پاس موجود تھے، مگر ان میں سے کوئی بھی میرے قریب نہیں آیا ، سب مجھے دور کھڑے دیکھ رہے تھے۔ زہر تو مجھے پینا ہی تھا ، پھر کیوں کسی کا انتظار کرتی۔ جیسے ہی میں نے پیالہ منہ سے لگایا۔ایک چیخ نما آواز آئی عائشہ۔۔۔۔۔۔۔!!! اور میری آنکھ کھل گئی ، اسی کے ساتھ میرے جسم کو جھٹکا سا لگا تھا۔ ہوش کی دنیا تک آتے آتے میں سوچ رہی تھی کہ شاید کسی نے وہ پیالہ مجھ سے چھین لیا تھا ، وہ شاید ابو تھے۔ ذہن پر زور دیتے خواب کے منظر کو دہراتے میں آٹھ گئی تو دیکھا امی سرہانے ہی کھٹی تھیں ” بے وقت کیوں سوئیں…..؟ طبیعت تو ٹھیک ہے ؟ ” انہوں نے میری پیشانی پر ہاتھ رکھتے ہوئے پوچھا۔ جی ٹھیک ہوں ۔ بچے کہاں ہیں۔۔۔۔۔؟ اسی لیے تو تمہیں آواز دے رہی تھی ، اب تو انہیں کچھ کھلا پلا دو،، دوپہر میں بھی انہوں نے صحیح طرح سے کچھ نہیں کھایا تھا۔ "جی اچھا” میں بال سمیٹتے ہوئے بیڈ کے کنارے پر ٹک گئی اور امی بھی پاس ہی بیٹھ گئی ۔ پھر ریحان سے تمہاری کوئی بات ہوئی ؟ کئی دن ہوگئے عضے بھرے انداز سے کہا ۔ کیا کہا اس نے ؟؟ امی آپ کو بتایا تو تھا ، پھر کیوں ایک ہی سوال بار بار پوچھتی ہیں۔ میں بے زاری سے بولی میری تو یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ نہ جانے کیوں باربار وہی بات سنن،ئا چاہتی ہیں، جسے سن کر خود آپ کو تکلیف اور مجھے اذیت محسوس ہوتی ہے میں نے قدرے مغمول لہجے میں کہا۔ "کہہ رہے تھے خود گئی ہو ، تو خود ہی آجاو ۔ مجھ سے توقع مت رکھنا کہ واپس لینے آوں گا۔”
” ویسے میں سوچ رہی تھی کہ اس میں بھی کوئی حرج تو نہیں ہے جیسے آئی تھیں، ویسے ہی جاسکتا ہو اور میاں ، بیوی کے بیچ تو جھگڑے ہوتے ہی رہتے ہیں، اس کا مطلب یہ تھوڑی ہے کہ ساری زندگی میکے میں گزار دی جائے ۔ ویسے بھی تم بیوی ہو اس کی اور دو بچوں کی ماں بھی ۔” وہ بے گانگی سے بولیں۔ ” لیکن ابو کا کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ کو پتا ہے ناں ، ابو ان سے بات کرنا چاہتے ہیں، انہیں ان کی ذمے داریوں کا احساس دلانا چاہتے ہیں۔ آپ خود سوچیں امی کہ آخر میں اور میرے بچے کب تک سسرال والوں کے رحم و کرم پر رہیں گے۔ میں نے تو پھر جیسے تیسے گزارہ کر لیا ، لیکن بچوں کا کیا ۔۔۔۔۔وہ کیوں دوسروں کے احساس تلے دبے رہیں؟ چھوٹی چھوٹی خواہشات کی تکمیل کے لیے دوسروں پر انصار کرتے رہے تو ان کی خود اعتمادی کو ٹھیس پہنچے گی ، عزت نفس ختم ہوجائے گی اور انہیں بھی دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانے کی عادت پڑ جائے گی ، جو میں ہر گز نہیں چاہتی ۔” ایک تو مجھے تمہارے ابو کی بھی سمجھ نہیں آتی ۔ انہیں اب ریحان سے کیا بات کرنی ہے ۔ ہم نے تمہاری شادی کردی ، تمہیں رخصت کرکے ہماری ذمے داری ختم ۔ اب نبھانا تم نے ہے ، تم پہ فرض ہے کہ شوہر کا مزاج سمجھو ۔ اس کے دکھ ، سکھ میں ساتھ دو، اس کے مطابق زندگی گزارو۔”
اتنے سالوں سے برداشت ہی تو کرتی آئی ہوں ۔ بیوی ہوں تو کیا ہوا ، ان کا کوئی فرض نہیں ہے ۔۔ وہ مجھے کتنا کچھ کہہ گئے ، بچوں تک کی پروا نہیں کی ، چلو میں ماں لیتی ہوں میں بڑی ہوں ، لیکن بچے تو ان کے اپنے ہے ناں ، ایک بار بھی پلٹ کر بچوں کے بارے میں بھی جاننے کی کوشش نہیں کی کہ وہ کیسے ہیں کس حال میں ہیں۔ الٹا یہ کہا کہ بچوں کی بھی ضرورت نہیں رکھ لے تمہارے امی ابو مجھے پروا نہیں ۔ ایک آدمی شوہر چاہے کیسا بھی ہو ، لیکن باپ کے روپ میں تو بچوں کا سائبان ہوتا ہے مگر میرے بچوں کا سائبان ہی ان سے بیزار ہے ” میں ایک ہی سانس میں بولتی چلی گئی اور آنسو بہنے لگے۔ سینے میں چبھے تیر تکلیف دے رہے تھے میں سوچتی رہی کہ ریشم کی ڈوری کی طرح میں ہی پاوں سے لپٹ رہی ہوں۔
(جاری ہے ۔۔۔۔)
@BismaMalik890