ذہنی غلام تحریر : نواب فیصل اعوان

0
38

ہم ذہنی غلام ہیں ۔
ہمارے ذہن میں ایک بات فیڈ کر دی جاتی ہے کہ اپنے تعلقات وسیع رکھو جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کا تعلق ہر فیلڈ کے بندے کے ساتھ ہونا لازم ہے ۔
پاکستان میں جو شخص چمچہ گیری کرنا جانتا ہے وہ شخص کامیاب ہے ۔
دوسرے لفظوں میں تعلقات سے مراد ہے کہ آپ کس حد تک چمچہ گیری کر سکتے ہو ۔
ایک شخص اپنے علاقے میں اپنی دھاک بٹھانے کیلۓ کسی سیاستدان کو اپنے ہاں زور زبردستی دعوت دے ڈالے گا ہر کسی کو ڈھول کی تھاپ پہ رقص کرتے ہوۓ بتاۓ گا کہ جی وہ فلاں وڈیرہ ، خان ، جام ، ملک یا نواب اس کے ہاں آ رہا ہے دعوت کے انتظامات کیۓ جاٸیں گے ۔
وہ سیاسی یا دوسرے لفظوں میں امیر یا ہاٸ فاٸ شخص بھی آ دھمکے گا علاقہ پورا امڈ آۓ گا جیسے مریخ سے کوٸ ایلین اترا ہو ۔
اس شخص نے اپنے علاقے میں بینرز فلیکس لگا لگا علاقے کا حشر نشر کر دینا ہوتا کہ جی ویلکم یا جی آیاں نوں فلاں ابن فلاں ۔
الغرض کے خوشامد کے ایسے ایسے جتن کرے گا کہ اللہ امان ۔
علاقے میں بتا رکھا ہوگا کہ فلاں تو اس کا لنگوٹیا یار ہے وہی شخص دعوت پہ خطاب کرتے ہوۓ اپنے لنگوٹیۓ یار کا نام دو چار بار پوچھ ہی لے گا کہ کیا نام ہے بھلا آپ کا ۔
عزت اور ذلت اللہ پاک کے ہاتھ میں ہے کسی انسان سے تعلق رکھنا یا نہ رکھنا کوٸ معنی نہیں رکھتا ہاں اگر معنی رکھتا ہے تو انسان کو اس کی حیثیت کے مطابق چادر پہ پاٶں پھیلانا ۔
ہم اس قدر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی دوڑ میں گر گیۓ ہیں کہ ہم ذہنی غلام بن چکے ہیں ہم ظاہری ٹپ ٹاپ کو اہمیت دینے والے اگر صحیح معنوں میں خود پہ محنت کریں تو ایک روز وہ معیار بنا جاٸیں گے کہ ہمیں لوگوں کو دکھانے کیلۓ زور زبردستی کسی کو دعوت نہیں دینی پڑیگی بلکہ لوگ خود سے پوچھتے پوچھتے ہمارے ہاں مہمان ہونے ہیں ۔
ہمیں اس ذہنی غلامی سے اس سوچ سے چھٹکارہ پانا چاہیۓ ۔
اگر ہم سب کے بارے میں یکساں سوچ رکھتے ہیں اور اپنے بارے علیحدہ تو یہ بھی غلط ہے ۔
خود کو طورم خان سمجھ کے اوروں کو نیچ یا بدتر سمجھنا جیسے وہ کوٸ شودر ہوں اور آپ پاک ذات تو یہ نظریہ بھی سراسر غلط ہے ۔
اپنے بارے میں لوگوں کا نظریہ تبدیل کرنے کو یہ چاپلوسی یا چمچہ گیری والے کام نہیں رہے گیۓ اگر حقیقی معنوں میں چاہتے ہو کہ لوگ تمہاری عزت دل سے کریں نہ کہ تمہاری ظاہری پھوت پھات سے تو ایسے میں خود میں عاجزی لاٶ ۔
لوگوں کے بارے میں اچھے خیالات رکھو ۔
دوسروں کو نیچ یا کمتر نہ سمجھو ۔
دوسروں کی عزت و نفس کا خاص خیال رکھو ۔
ایسا کام کرو جو ظاہری خوشامد نہ ہو بلکہ اس میں انسانیت کی بھلاٸ ہو ۔
اگر دل سے اوروں کے ساتھ مخلصی سے کھڑے ہو گے تو یہ زور زبردستی کے تعلقات تمہاری مخلصی دیکھ کر تم سے خوشگوار ہو جاٸیں گے ۔
لازم نہیں ہے کہ زندگی گزارنے کیلۓ بڑے لوگوں تک رساٸ ہو تو اچھا ہے یاد رکھو
چاپلوسی اور کسی کی چمچہ گیری سے بہتر ہے کہ اپنا ایک رتبہ اور پہچان بناٶ کہ لوگ تمہاری چاپلوسی اور چمچہ گیری کریں نہ کہ تم ۔

Leave a reply