اسلامی نظریاتی کونسل کے تحفظات کے باعث زیادتی کے مجرم کو کیمیائی آختہ کاری (کیمیکل کے ذریعے جنسی طور پر ناکارہ بنانا) کی شق قانون سے نکال دی گئی۔

باغی ٹی وی : اس حوالے سے پاکستان تحریک انصاف کی رہنما ملیکہ بخاری نے کہا کہ زیادتی کے واقعات میں ملوث ملزمان کا ڈیٹا محفوظ کیا جارہا ہے، آئندہ زیادتی کے واقعات کا ٹرائل پبلک نہیں، اِن کیمرہ ہوگا جبکہ ٹو فنگر ٹیسٹ روک دیا گیا ہے۔

ملیکہ بخاری نے کہا کہ خواتین کی کردار کشی کے عمل کو کوئی قانونی حیثیت نہیں دی جائے گی۔

پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ وزیراعظم نے اتحادیوں کے ساتھ مل کر تاریخی قانون سازی کی ہے، اینٹی ریپ کا جو پہلے قانون تھا اس میں سقم تھا، ہمارے ملک میں زیادتی کے کیسز میں سزاؤں کا تناسب ایک فیصد سے بھی کم ہے۔

ملیکہ بخاری کا کہنا تھا کہ قوانین کی اہم شقوں میں خصوصی عدالتوں کا قیام ہے تاکہ التوا ختم ہو، ہر ایک ضلع میں خصوصی تفتیشی یونٹ قائم کیا جائے گا جس میں تربیت یافتہ تفتیش کاروں کو شامل کیا جائے گا۔

واضح رہے کہ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس، زیادتی کے جرم میں ملوث مجرم کو نامرد بنانے کی سزا کا بل منظور کر لیا گیا، عصمت دری کے مرتکب جنسی مجرموں کو کیمیکل کاسٹریشن کا کے ذریعے نامرد بنانے کا بل پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں منظور کیا گیا جماعت اسلامی کی جانب سے زیادتی کے مجرم کو سرعام پھانسی دینے کی تجویز مسترد، خواتین اوربچوں کےخلاف جنسی تشدد روکنےکا بل بھی منظور ہو گیا۔ تفصیلات کے مطابق بدھ کے روز ہونے والے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے دوران کل 29 بل منظور کر لیے گئے۔

حکومت کی جانب سے پیش کیے گئے 28 بلز جبکہ مسلم لیگ ن کی جانب سے پیش کیا گیا 1 بل منظور کیا گیا ہے اجلاس کے دوران زیادتی کے جرم میں ملوث مجرم کو نامرد بنانے کی سزا کا بل بھی منظور کر لیا گیا۔ بل کثرت رائے سے منظور کیا گیا، اس دوران جماعت اسلامی کی جانب سے زیادتی کے مجرم کو سرعام پھانسی کی سزا دینے کی تجویز دی گئی، جسے مسترد کر دیا گیا۔

اس طرح پاکستان میں بسنے والی خواتین اور فرشتوں جیسے بچوں کے لیے کھل فضا میں سانس لینے کی امید پیدا ہو گئی وہ والدین جن کے بچے اور بچیاں تعلیم یا روزگار کے کیے گھر سے باہر جاتے ہیں ان کو بھی اب کافی حد تک اپنے بچوں کی عزتوں کے تحفظ کا احساس پیدا ہوگا بدھ کو قانون سازوں نے انسداد عصمت دری کی نئی قانون سازی کی جس کا مقصد سزاؤں کو تیز کرنا اور سخت سزائیں دینا ہے۔

یہ ملک میں خواتین اور بچوں کے خلاف عصمت دری میں حالیہ اضافے اور جنسی زیادتی کا شکار ہونے والوں کے لیے انصاف کو یقینی بنانے کے بڑھتے ہوئے مطالبات پر بڑے پیمانے پر عوامی احتجاج کے جواب میں آیا ہے۔

بل میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی حکومت کو ملک بھر میں خصوصی عدالتیں قائم کرنی ہوں گی تاکہ عصمت دری کے مقدمات کی سماعت میں تیزی لائی جا سکے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ جنسی زیادتی کے مقدمات کا فیصلہ "تیزی سے، ترجیحاً چار ماہ کے اندر” ہو۔

اجتماعی عصمت دری کے مجرم پائے جانے والوں کو موت یا عمر قید کی سزا سنائی جائے گی کیمیکل کاسٹریشن لیبیڈو یا جنسی سرگرمی کو کم کرنے کے لیے ادویات کا استعمال ہے۔ یہ جنوبی کوریا، پولینڈ، جمہوریہ چیک اور کچھ امریکی ریاستوں سمیت ممالک میں سزا کی ایک قانونی شکل ہے۔

نمک چھڑکا تھا جو اس جنسی استحصال کا شکار ہوئے تھے اور ان میں سے کئی تو اب اس دنیا میں ہی موجود نہیں ہیں کیمیکل کاسٹریشن کی سزا گزشتہ
پاکستان میں جنسی زیادتی یا عصمت دری کے 3% سے بھی کم واقعات کے نتیجے میں سزا سنائی جاتی ہے ۔

زیادہ تر متاثرین تو اپنے اوپر ہونے والے اس تشدد کو اپنے گھر والوں کے سامنے بھی بیان نہیں کرپاتے اور ساری زندگی اس نہ کردہ گناہ پر پچھتاوے کی زندگی گزارتے ہیں-

بعض بچیاں یا خواتین تو اپنی جان کی قربانی دیکر دوسروں کے گناہ کا ازالہ کرتی ہیں حکومت نے یہ بہت اچھا قدم اٹھایا ہے اس سے یہ بھیانک جرم کرنے والے کو بھی تاحیات یہ خوف تو رہے گا کہ اگر وہ پکڑا گیا تو باقی زندگی کسی کو منہ دکھانے کے قابل بھی نہیں رہے گا-

Shares: