جن وانس کی تخلیق کا حقیقی مقصد اللہ تبارک وتعالیٰ کی بندگی بجا لانا ہے اللہ تبارک وتعالیٰ کی بندگی کے لیے مختلف طریقے قرآن وسنت میں متعین کیے گئے ہیں‘ جن میں نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج، صدقات، نوافل، ذکرِ الٰہی، دعا اور دیگر بہت سی عبادات شامل ہیں۔

اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی بندگی کے لیے بعض ایام کو خصوصی اہمیت اور فضیلت بھی عطا فرمائی ہے جن میں ایام ذی الحجہ کو بھی خصوصی اہمیت حاصل ہے۔

اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ توبہ کی آیت نمبر 36میں ارشاد فرماتے ہیں: ”بے شک مہینوں کا شمار اللہ کے نزدیک بارہ ہے‘ اللہ کی کتاب میں جس دن اس نے پیدا کیا آسمانوں اور زمین کو اور اُن میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں‘‘۔ حرمت والے چار مہینوں میں رجب، ذو الحج، ذی القعد اور ـمحرم شامل ہیں۔

حرمت والے ان چار مہینوں میں ذی الحجہ کی اپنی ایک شان اور مقام ہے کیونکہ یہ دین اسلام کے پانچویں اہم ترین رکن’’حج‘‘ کی ادائیگی کا مہینہ ہے اس لیے اس مہینے کا نام ہی ذوالحج رکھا گیا ہے یعنی حج والا مہینہ اس مہینے کی 8تاریخ کو حاجی حج کا قصد کرتے اور 9 تاریخ کو عرفات میں وقوف کرتے ہیں، عرفات کے اس وقوف کی وجہ سے اللہ تبارک وتعالیٰ حاجیوں کی جملہ خطاؤں کو معاف فرما دیتے ہیں اور اس مہینے کی 10تاریخ کو دنیا بھر میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے حاجی اور غیر حاجی مسلمان جانوروں کو ذبح کرتے ہیں-

اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ فجر کی آیات 1اور 2میں ارشاد فرماتے ہیں:”قسم ہے فجر کی اور دس راتوں کی ‘‘۔ مفسرِ اُمت حضرت عبداللہ ابن عباسؓ کے مطابق ان دس راتوں سے مراد ذی الحجہ کا پہلا عشرہ ہے۔ سورہ فجر میں مذکور دس راتوں کے بارے میں جہاں حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی رائے واضح ہے‘ وہیں مفسرین کی اکثریت کے نزدیک بھی ان دس راتوں سے مراد عشرہ ذی الحجہ ہے۔

نبی کریمﷺ کا فرمان ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک زمانے بھر (پورے سال )میں عشرہ ذی الحجہ سے افضل کوئی دن نہیں ہے۔ اسی طرح ایک اور حدیث میں بیان ہوا کہ دنیا (سال)کے سب سے افضل یہ دس دن‘ یعنی عشرہ ذوالحج ہیں۔

جس طرح رمضان المبارک کا مہینہ نزول قرآن کی یاد دلاتا ہے اسی طرح عشرہ ذی الحجہ سے تکمیلِ دین کی یادیں وابستہ ہیں۔ سورۃ المائدہ کی آیت نمبر 3 میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ”آج میں نے تمہارا دین تمہارے لیے مکمل کر دیا‘ اپنی نعمت تم پر تمام کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو بطور دین پسند فرمایا‘‘۔ تکمیل دین کی بشارت اتنی بڑی خوشخبری تھی کہ اِس کی قدر و قیمت کا احساس عہدِ صحابہ کے غیر مسلموں کو بھی تھا۔

صحیح بخاری میں حدیث ہے کہ ایک یہودی نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا: اگر ہمارے یہاں سورہ مائدہ کی یہ آیت نازل ہوتی کہ ”آج میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت کو پورا کر دیا اور تمہارے لیے اسلام کو بطور دین کے پسند کر لیا‘‘ تو ہم اس دن کو عید (خوشی) کا دن بنا لیتے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں جانتا ہوں کہ یہ آیت کس دن نازل ہوئی تھی، عرفہ کے دن نازل ہوئی اور وہ جمعہ کا دن تھا۔ یعنی یہ دونوں ایام عید یعنی خوشی ہی کے دن ہیں-

صحیح بخاری میں روایت ہے کہ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ نیکی‘جس قدر ان ایام میں فضیلت والی ہوتی ہے‘ اتنی دیگر ایام میں نہیں ہوتی۔ لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کیا کہ کیا جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں؟ تو آپﷺ نے ارشاد فرمایا: جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں‘ سوائے اس شخص کے جو اپنی جان اور مال کے ساتھ جہاد کے لیے روانہ ہوا اور اس میں سے کچھ بھی واپس نہ لایا یعنی لڑتے ہوئے اللہ کی راہ میں شہید ہو گیا۔

مسند احمد میں ایک حدیث ہے جس کے راوی حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہم فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ کی نظروں میں ان ایام سے زیادہ افضل کوئی بھی دن نہیں کہ جن میں کیے جانے والے نیکی کے کام ان ایام میں کیے جانے والے نیکی کے کاموں سے زیادہ اللہ کو محبوب ہوں۔

چنانچہ ان دنوں میں بکثرت تہلیل‘ تکبیر اور تحمیدکرنی چاہیے۔ یوم عرفہ کے حوالے سے یہ بات ثابت ہے کہ اس دن کی بہترین دعا جو نبی کریمﷺ اورآپ سے پہلے انبیاء کا ذکر ہے‘ وہ ”لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہٗ لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شئی قدیر‘‘ ہے۔ ان ایام میں روزے رکھنے کی بھی خصوصی فضیلت ہے۔

عرفہ کے روزے کی فضیلت تو واضح ہے کہ اس دن روزہ رکھنے والے کے گزشتہ اور آئندہ آنے والے برس کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ جیسا کہ صحیح مسلم میں حدیث ہے کہ رسولﷺ نے فرمایا: عرفہ کے دن کا روزہ‘ میں اللہ سے امید رکھتا ہوں کہ‘ پچھلے سال کے گناہوں کا کفارہ بن جائے گا اور اگلے سال کے گناہوں کا بھی۔

اس مہینے کے مخصوص ایام نویں ذوالحج کی نماز فجر سے تیرہویں ذوالحج کی نماز عصر تک میں ہر فرض نماز کے بعد تکبیرات تشریق کہی جاتی ہیں۔ تکبیر تشریق یہ ہے:اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ واللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد اس مہینے کے پہلے عشرہ کے روزوں کا ثواب بہت زیادہ ہے یہاں تک کہ اس کے ایک دن کا روزہ سال بھر کے روزوں کے برابر ہے ۔

جامع الترمذی میں ایک حدیث ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ حضرت نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کے ہاں عام دنوں کے مقابلے میں عشرہ ذو الحج کی عبادت زیادہ محبوب ہے، اس ایک دن کا روزہ ایک سال کے روزوں کے برابر ہے اورایک رات کی عبادت لیلۃ القدر کی عبادت کے برابر ہے یہ فضیلت یکم سے9 ذوالحج تک کے روزوں کی ہے، دسویں تاریخ کو روزہ رکھنا جائز نہیں ہے۔حضرت نبی کریم ﷺ ذوالحج کے پہلے 9 دنوں میں روزہ رکھا کرتے تھے۔

اس مہینے کی دسویں، گیارہویں اور بارہویں تاریخ کو اللہ کے نام پر متعین جانور کو ذبح کیا جاتا ہے یعنی قربانی کے مبارک عمل کی ادائیگی کی جاتی ہے اس دن اس عمل سے زیادہ کوئی اور عمل زیادہ اجر و ثواب والا نہیں۔

ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’عید الاضحیٰ کے دن کوئی نیک عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک قربانی کا خون بہانے سے محبوب اور پسندیدہ نہیں اور قیامت کے دن قربانی کا جانور اپنے بالوں، سینگوں اور کھروں سمیت آئے گا اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے ہاں شرفِ قبولیت حاصل کر لیتا ہے لہٰذا تم خوش دلی سے قربانی کیا کرو۔

سنن ابن ماجہ میں ہے کہ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: حضرت رسول کریمؐ کے صحابہ رضی اللہ عنہم نے سوال کیا: یاحضرت رسول اللہؐ! قربانی کی حیثیت کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: تمہارے روحانی باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ ہمیں قربانی کرنے سے کیا ملے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا، ہر بال کے بدلے میں ایک نیکی۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پھر سوال کیا یاحضرت رسول اللہؐ!اون کے بدلے کیا ملے گا فرمایا: اون کے ہر بال کے بدلے میں نیکی ملے گی۔

صحیح مسلم میں روایت ہے کہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ حضرت رسول کریمؐ نے ارشاد فرمایا :جب ذو الحج کا پہلا عشرہ شروع ہوجائے یعنی ذو الحج کا چاند نظر آجائے اور تم میں سے کسی کا ارادہ ہو قربانی کا تو اس کو چاہیے قربانی کرنے تک اپنے بال اور ناخن نہ تراشے۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا گیا کہ دینِ اسلام میں کون سا عمل زیادہ بہتر ہے؟ تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’’دل سے اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا۔پھر پوچھا گیا کہ اس کے بعد کون سا عمل زیادہ بہتر ہے؟ تو آپ ﷺنے ارشاد فرمایا کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنا،پھر عرض کیا گیا کہ اس کے بعد کون سا عمل زیادہ بہتر ہے ؟ تو آپ ﷺنے ارشاد فرمایا کہ’ اس کے بعدحج مبرور‘۔

صحیح بخاری میں حدیث ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ،میں نے حضرت رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کو حاصل کرنے کے لئے حج کرے اور دوران سفر اپنے ساتھیوں سے بیہودہ باتیں کلام یا لڑائی جھگڑا وغیرہ نہ کرے اور کبیرہ گناہوں سے بچتا رہے تو وہ حج کرنے کے بعد گناہوں سے ایسا پاک و صاف ہو جاتا ہے جیسا کہ وہ اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتے وقت پاک و صاف تھا-

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ حج کو آنے والے اور عمرہ ادا کرنے والے اللہ تعالیٰ کے معزز مہمان ہیں؛ اگر وہ اللہ تعالیٰ سے دعاء مانگیں تو اللہ تعالیٰ ان کی دعاء قبول فرماتا ہے اور اگر وہ گناہوں کی مغفرت طلب کریں تو اللہ تعالیٰ ان کے گناہوں کو بخش دے گا-

Shares: