جس طرح ایک جسم کو صحتمند رکھنے کے لیئے اچھی اور معیاری خوراک کی ضرورت ہوتی ہے۔۔۔۔
اسی طرح روح کی قوت اور توانائی کے لیئے بھی معیاری اعمال کی ضرورت ہوتی ہے۔۔۔۔ !!!!!
جب ہم اپنے دل کی دنیا میں بغاوت،نافرمانی اور اللّٰہ تعالی کی ناراضگی والے کاموں کی تخم ریزی شروع کر دیتے ہیں۔۔۔۔
تو آہستہ آہستہ یہ بد عملی سیاہی بن کر ہمارے دل کو ڈھانپ لیتی ہے۔۔۔۔
اس روح کی تسکین کا پہلا مرحلہ تو اپنے خالق کی صحیح معنوں میں پہچان ہے۔۔۔۔
اس کی توحید ربوبیت،الوہیت،اور اسما وصفات پر صحیح معنوں میں ایمان ہے۔۔۔
جب ہم اس چیز کو سمجھ کر اپنا لیتے ہیں۔۔۔۔تو پھر ہمارے قدم ٹیڑھے نہیں ہو سکتے۔۔۔۔
ہماری روح سرشار رہتی ہے۔۔۔۔۔
تنگ نہیں ہوتی۔۔۔۔فرمانبرداری ہماری زندگی کا لازمی حصہ بن جاتی ہے۔۔۔۔
روح کے کمزور ہونے کی وجہ قضا و قدر پر راضی نہ ہونا ہے۔۔۔۔
یعنی جب ہم اللّٰہ تعالی کی حکمت،فیصلوں پر کھلے دل سے اطمینان ظاہر نہیں کرتے۔۔۔۔
شکوہ و شکایت زبان پر لاتے ہیں۔۔۔
مقدر کو کوستے ہیں۔۔۔تو پھر یہ روح توانا نہیں رہتی۔۔۔۔۔قوتِ ایمانی کمزور پڑ جاتی ہے۔۔۔۔
اور انسان رفعتوں سےگہرائی کی طرف سفر کرنے لگتا ہے۔۔۔۔ !!!!!
یہ دنیا چند دنوں کی ہے۔۔۔یہاں ملنے والی کوئی چیز،اور نعمت بھی پائدار نہیں ہے۔۔۔۔
ہر شئے کا یہاں خاصہ جدائی ہے۔۔۔۔!!!!!!
تو پھر ہم کیوں اس تھوڑے سے وقت کے لیئے نہ ختم ہونے والے وقت کو برباد کر دیں۔۔۔۔!!!!!!!!
اللّٰہ کے ذکر اور یاد سے اعراض بھی ہماری روح کو کمزور کر دیتا ہے۔۔۔۔۔رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اس شخص کی مثال جو اپنے رب کا ذکر کرتا ہے،اور اس شخص کی مثال جو اپنے رب کا ذکر نہیں کرتا۔۔۔۔زندہ اور مردہ شخص کی طرح ہے۔۔۔”
(صحیح بخاری)۔
یعنی ہماری روحانی طاقت کے لیئے اللّٰہ کا ذکر کتنی اہمیت رکھتا ہے کہ اسے زندہ اور مردہ سے تشبیہہ دی گئی ہے۔۔۔۔
ارشاد ربانی ہے:
"اور(ہاں)جو میری یاد سے روگردانی کرے گا،اس کی زندگی تنگ رہے گی اور روز قیامت ہم اسے اندھا کر کے اٹھائیں گے۔۔۔”
(طٰہٰ:124)
پیارے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو حکم ملا:
اپنے پروردگار کی تعریف اور تسبیح بیان کرتا رہ۔۔۔۔سورج نکلنے سے پہلے،اور اس کے ڈوبنے سے پہلے،رات کے مختلف وقتوں میں بھی اور دن کے حصوں میں بھی تسبیح کرتا رہ۔۔۔۔بہت ممکن ہے کہ تو راضی ہو جائے۔۔۔”
(طٰہٰ:130)۔
اس اتنے اوقات کی تسبیح و تحمید میں نماز،تلاوت،ذکر واذکار،دعا و مناجات،نوافل وغیرہ سب شامل ہیں۔۔۔۔!!!!!!!
مگر ہمارے پاس دن بھر سوشل میڈیا پر انگلیاں چلانے کا وقت تو بہت۔۔۔۔لیکن نماز کے اوقات کھو جانے کا ذرا غم نہیں ہوتا۔۔۔
ٹیلی ویژن کی سکرین۔۔۔۔فلموں کی لذت۔۔۔۔لہو الحدیث میں مبتلا ہو کر۔۔۔۔حی علی الفلاح کی صدا پر نرم و ملائم بستر میں گھسے رہ کر۔۔۔
دل میں ندامت کروٹ نہیں لیتی اور نماز اور دیگر فرائض کی فکر اور ضرورت سے لا تعلق رہ جاتے ہیں۔۔۔۔
پھر روحانی بالیدگی کے اثرات ایسے شخص پر کیسے نمودار ہو سکتے ہیں۔۔۔؟؟؟؟
ہماری روح تسکین کی دولت سے مالا مال کیسے ہو۔۔۔۔؟؟؟
اللّٰہ کی رضا کی متلاشی اطمینان پانے والی روح بے مقصد زندگی نہیں گزارتی۔۔۔۔
زندگی کے سفر میں گناہ سرزد ہو بھی جائیں تو سچے دل سے رجوع الی اللہ اور توبہ کرتی ہے۔۔۔۔
توبہ کی امید پر گناہ نہیں۔۔۔کیونکہ ایمان والوں کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا:
"ان سے جب کوئی ناشائستہ کام ہو جائے،یا کوئی گناہ کر بیٹھیں تو فوراً اللّٰہ کا ذکر اور اپنے گناہوں کے لیئے استغفار کرتے ہیں۔۔۔
فی الواقع اللّٰہ کے سوا اور کون گناہوں کو بخش سکتا ہے؟
اور وہ لوگ باوجود علم کےکسی برے کام پر اَڑ نہیں جاتے۔۔۔”
(آل عمران:135)۔
سچی توبہ کر لینے والی کی روح شاد باد ہو جاتی۔۔۔۔یہ اللّٰہ کا وعدہ ہے کہ گناہوں کا اعادہ نہ کرنے والے سے پچھلے گناہوں کی بازپرس نہیں ہو گی۔۔۔۔
رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"گناہ سے(سچی)توبہ کرنے والا ایسے ہی ہے،گویا اس کے ذمہ کوئی گناہ ہی نہیں۔۔۔”
(ابن ماجہ_کتاب الزہد)۔
مگر جو سود کو حرام سمجھتے ہوئے بھی اسی میں دھنسا جا رہا ہو۔۔۔۔
جو شراب سے توبہ کر کے پھر پی رہا ہو۔۔۔۔
جو فحاشی و بدکرداری کو گناہ سمجھتے ہوئے بھی اعادہ کرتا اور ترویج و اشاعت کرتا جا رہا ہو۔۔۔۔
توبہ کر کے پھر توبہ کی امید پر گناہ کرتا چلا جائے۔۔۔
تو اس کے پاس کیا گارنٹی ہو گی کہ وہ مرنے سے پہلے ضرور ہی توبہ کر لے گا۔۔۔۔؟؟؟؟
موت کا شکنجہ اسے سنبھلنے بھی دے گا کہ نہیں۔۔۔۔۔؟؟؟؟
دنیا کی لذتوں کی خاطر اپنے نفس کا تزکیہ نہ کرنا بہت بڑی محرومی ہے۔۔۔
ارشاد ربانی ہے:
"بے شک اس نے فلاح پا لی جو پاک ہو گیا۔۔۔جس نے اپنے رب کا نام یاد رکھا اور نماز پڑھتا رہا۔۔۔
لیکن تم دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو۔۔۔اور آخرت بہت بہتر اور بقا والی ہے۔۔۔”
(الاعلیٰ:14_17)۔
اپنے دل کو شرک کی آلودگی،نافرمانی کے کاموں۔۔۔حسد،بغض،برائی،قطع رحمی،والدین سے بد سلوکی، ظلم و زیادتی اورحرام مال کی محبت سے پاک صاف کر لینے۔۔۔۔
اپنے دل کی دنیا میں ایمان،توحید،اطاعتِ رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم،عملِ صالح،صلہ رحمی،تقویٰ اور قضا و قدر پر راضی برضا رہنے۔۔۔۔۔
والوں کی روحیں اطمینان کے گھر میں داخل ہوں گی۔۔۔۔جسے علیین کہا گیا ہے کہ:
یہ علو (بلندی)سے ہے جس میں نیک لوگوں کے نامۂ اعمال،اور روحیں رکھی جاتی ہیں۔۔۔جس کے پاس مقرب فرشتے حاضر رہتے ہیں۔۔۔۔
جبکہ بدکرداروں کے نامۂ اعمال اور روحیں سجین میں رکھے جائیں گے۔۔۔۔
سِجِّینِِ۔۔۔۔سجن سے ہے۔۔۔تنگ و تاریک مقام۔۔۔۔گھٹن والا ماحول۔۔۔قید خانہ نما۔۔۔۔۔ !!!!!!
اطمینان والی روح۔۔۔۔۔ایمانی قوت سے آراستہ ہو کر جب پرواز بھرتی ہے تو اعلان ہوگا:
"اے اطمینان والی روح !!!!
تو اپنے رب کی طرف چل،اس طرح کہ تو اس سے راضی۔۔۔۔وہ تجھ سے خوش۔۔۔۔
پس میرے خاص بندوں میں داخل ہو جا۔۔۔۔اور میری جنت میں چلی جا۔۔۔۔۔”
(الفجر:27_30)۔
اللھم اجعلنا منھم۔۔۔۔آمین ثم آمین۔۔۔!!!!!!!
حافظ ابن کثیر نے ابن عساکر کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو یہ دعا پڑھنے کا حکم دیا:
(اللھم انی اسأَلک نفساً،بک مطمئنۃً،تُؤمِنُ بلقآئک،و ترضیٰ بقضآئک،و تقنع بعطآئک)۔۔۔(ابن کثیر)۔۔۔۔ !!!!!
اللّٰہ ہمیں جسمانی و روحانی طور پر طاقتور بنا دے۔۔۔۔
کہ جس سے ٹکرا کر ہر شر پاش پاش ہو جائے۔۔۔۔آمین
اور ہمیں اپنے مقربین میں سے کرنا۔۔۔۔۔ہماری روحیں اعلیٰ علیین میں جگہ پا سکیں۔۔۔۔آمین ثم آمین۔۔۔۔۔ !!!!!!!