شہنشاہِ قوال نصرت فتح علی خان
نصرت فتح علی خان ایک ایسے گائیک تھے جنہوں نے قوالی سے غزل ، گیت پوپ ، راک لالی وڈ سے بالی وڈ اور پھر ہالی وڈ کا سفر بڑی کامیابی سے طے کیا۔ ناکہ اپنی زبان سمجھنے والے بلکہ غیر زبان سمجھنے والے بھی ان کو اتنا ہی پسند کرتے تھے ۔ ان کی آواز میں ایک خاص قسم کا اثر تھا۔ جو سننے والے کو اپنی طرف کھینچ لیتا تھا۔ وہ نہ صرف گائیک بلکہ بہت بڑے موسیقار بھی تھے جن کی دھنوں کو دنیا بھر میں بہت پذیرائی ملی اور ان کی دھنوں کوہمارے ہمسایہ ملک کے موسیقاروں نے نقل بھی کیا۔ وہ ہارمونیم بجانے سے ماہر تھے ۔طبلا بھی بہت اچھا بجاتے تھے ان کی بنائی ہوئی دھنوں کو دنیا میں بہت پسند کیا گیا۔ دنیا میں جنتے بھی گانے والے اور موسیقی ترتیب دینے والے چاہے وہ موسیقی کے بھی شعبے سے تعلق رکھتے ہوں وہ ان کو اپنا استاد ہی مانتے تھے ۔
نصرت فتح علی نے 1948ءمیں ایسے گھرانے میں آنکھ کھولی جو گھرانہ پہلے ہی کم و بیش چھ سو سال سے موسیقی یعنی قوالی سے منسلک تھا ان کے باپ کا نام فتح علی خان تھا جو کہ بہت بڑے استاد تھے ۔ جو انڈیا پنجاب جلندھر کے ایک علاقہ بستی شیخ سے ہجرت کر کے پاکستان پنجاب کے شہرفیصل آباد میں قیام پذیر ہوئے ۔نصرت فتح علی خان کا نمبر اپنے بہن بھائیوں میں پانچواں تھا اور وہ فتح علی خان کے پہلے بیٹے تھے ۔آپ کی چار بڑی بہنیں اور ایک چھوٹا بھائی فرخ خان تھا۔ ان کے والد نہیں چاہتے تھے کہ ان کا بیٹا نصرت فتح علی خان موسیقی کے شعبے میں آئے یا قوالی کرے ۔ کیونکہ وہ یہ مانتے تھے یہ معاشرہ موسیقی سے تعلق رکھنے والوں کو زیادہ عزت نہیں دیتا۔ تو اس لیے ان کی خواہش تھی کہ نصرت فتح علی خان ایک ڈاکٹر یا انجینئر بنے ۔ لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظر تھا ۔چونکہ نصرت فتح علی خان کو بچپن سے ہی قوالی کا شوق تھا تو انہوں نے طبلا سیکھا پھر گائیکی کی طرف آ گئے ۔ 1964ءمیں ان کے والدفتح علی خان انتقال کر گئے تو انہوں نے موسیقی کی تعلیم اپنے چچا مبارک علی خان اور سلامت علی خان سے لی ۔ نصرت فتح علی خان راحت فتح علی خان کے چچا ہیں۔
نصرت فتح علی خان کو پرویز کے نام سے جانا جاتا تھا۔ بعد میں غلام غوث ثمدانی نے ان کا نام نصرت فتح علی رکھااور کہا کہ تم ایک دن بہت بڑے گائیک بنو گے ۔ 1971ءمیں نصرت فتح علی خان کے چچا مبارک علی خان کی وفات ہو گئی ۔ تو اس طرح گھر میں بڑا بیٹا ہونے کی حیثیت سے نہ کہ پورے گھر کو سنبھالنا پڑا بلکہ اپنے چچا کی قوال پارٹی کوایک سربراہ کی حیثیت سے خود سنبھالا۔ اس قوال پارٹی کا نام نصرت فتح علی خان مجاہد مبارک علی خان پارٹی ہو گیا۔ نصرت فتح علی خان نے جب پہلی بار دنیا کے سامنے گایا تو ان کی عمر 16سال تھی اس قوال پارٹی جس کے سربراہ نصرت فتح علی خان تھے پہلی پرفارمینس اور ریکارڈنگ ریڈیو پاکستان ہوئی ۔ وہ ایک سالانہ موسیقی کا پروگرام تھا۔ جس کا نام جشن بہاراں تھا۔ جہاں نصرت فتح علی خان نے زیادہ اردو ،پنجابی اور گاہے بگاہے فارسی ، برج بھاشہ اور ہندی زبان میں گاتے تھے ۔ نصرت فتح علی خان کا پاکستان میں جو پہلا کلام مشہور ہوا وہ تھا ”حق علی علی “جو انہوں نے اپنے ثقافتی سازطبلہ اور ہارمونیم کے ساتھ پیش کیے اور اس میں نصرت فتح علی خان نے ایسے سرگم پلٹے کیے کہ دنیا عش عش کر اٹھی ۔ اس طرح وہ لوگوں میں مشہور ہونا شرو ع ہو گئے ۔
1985ءمیں نصرت فتح علی خان صاحب ورلڈ آرٹ اینڈ ڈانس فیسٹیول میں پرفارم کرنے کے لیے لندن گئے ۔ انہوں نے 1985ءاور 1988ءپیرس میں بھی پرفارم کیا۔ 1987ءمیں وہ پہلی دفعہ جاپان گئے جہاں انہوں نے پانچویں ایشیئن پرفارمنگ آرٹ فیسٹیول میں میں پرفارم کیا اور وہاں ان کی گائیکی کو بہت پذیرائی ملی۔1984ءمیں انہوں نے نیو یارک میں واقع برکلین اکیڈمی آف میوزم میں پرفارم کیا انہوں نے اپنی موسیقی کے سفر میں نہ سفر پاکستانی گانے گانے والے بلکہ دوسرے ممالک کے گانے والوں کے ساتھ بھی اپنی آواز کا جادو جگایا ہے۔اور انہوں نے بہت سے دوسرے موسیقاروں کے ساتھ مل کر موسیقی کے نت نئی تجربات کیے۔
1992اور 1993ءمیں دو بار انہوں نے یونیورسٹی آف وشنگٹن کے لیے پرفارم کیا۔ 1988ءمیں نصرت فتح علی خان صاحب نے ایک امریکی ہالی وڈ فلم کے لیے گایا جس کے موسیقار پیٹر گیبرئل تھے ۔ اس کامیاب تجربے کے بعد پیٹر گیبرئل نے نصرت فتح علی خان صاحب اپنی ریکارڈنگ کمپنی کے لیے سائن کر لیا ۔ یوں اس کمپنی سے نصرت فتح علی خان کے پانچ قوالی البم ریلیز ہوئے ۔ اور پھر اس کے بعد پیٹر گیبرئل نے نصرت فتح علی خان کو بروک جو کہ ایک بہت بڑے گٹار پلیئر تھے ان کو اکٹھا کام کرنے کا مشورہ دیا۔ وہ البم دنیا میں بہت مشہور ہوا اس البم کا نام تھا ”مست مست “ اور اس کے بعد نائٹ سونگ جس میں نصرت فتح علی خان صاحب اور بروک نے مل کر کام کیا ۔ جو 1995ءکو ریکارڈ ہوا اور 1996ءریلیز ہوا۔ اس کو دنیا میں بہت پذیرائی ملی ۔ اور اس کے بعد سٹار رائز جو کہ 1997ءریلیز ہوا جوں اس نصرت فتح علی خان صاحب نے مائیکل بروک کے ساتھ مل کر موسیقی کے بہت سے تجربات کیے ۔ مائیکل بروک ایک کینڈین گٹارسٹ تھے ۔ اس کے بعد نصرت فتح علی خان نے پل جیم بینڈ کے سنگر ایڈی ویڈر کے ساتھ مل کر دو گانوں میں گایا۔ جو کہ فلم ڈیڈ مین واکنگ کے لیے تھے ۔ نصرت فتح علی خان کورل ایکسٹرا کے ساتھ بھی اپنی آواز کا جادو جگایا جس کے کمپوزر جانتھن ایلس تھے ۔خان صاحب کے البم اینٹاکسٹڈ سپریٹ جو کہ 1997ءمیں گریمی وارڈ فار بیسٹ ٹڈیشنل فولک البم کے لیے نامزد ہوئی ۔ نصرت فتح علی خان نے پاکستانی فلموں کے لیے بھی گیا اور سکرین پر پرفارم بھی کیا۔ مرنے سے پہلے نصرت فتح علی خان صاحب نے بالی وڈ کی تین فلموں کا میوزک کیا۔ جن میں سے ایک فلم ”اور پیار ہو گیا“جس میں انہوں نے نہ صرف ساری فلم کی موسیقی ترتیب دی بلکہ ایک”کوئی جانے کوئی نہ جانے “گانا بھی خود گایا۔ اور سکرین پر پرفارم بھی کیا جس میں ان کے ساتھ فلم کی ہیرو ہیروئن بھی شامل تھے ۔ اس کے بعد فلم” کارتوس “کے لیے بھی انہوں نے موسیقی ترتیب دی ۔ یہاں انہوں نے اس فلم کے دو سونگ ”عشق دا رتبہ “گایا ۔ اور دوسرا سونگ بہا نہ آنسو“جس میں ان کے ساتھ ادت نارائن نے گایا ۔ اس کے بعد بالی وڈ کی فلم کچے دھاگے کے لیے ”اس شام کرم کا کیا کہنا “گایا۔ یہ فلم ان کی وفات کے دو سال بعد ریلیز ہوئی ۔ انڈیا کی دو بہت بڑی سنگر جو آپس میں بہنیں بھی ہیں عائشہ بھوسلے اور لتا منگیشکر انہوں نے بھی نصرت فتح علی خان کی بنی ہوئی دھنوں کو گایا۔ نصرت فتح علی خان نے ”سایہ بھی ساتھ جب چھوڑ جائے“ فلم دل لگی کے لیے گایا جو کہ ان کی وفات کے دو سال بعد ریلیز ہوا۔ فلم دھڑکن میں” دلہے کا سہرا “ بھی گایا جو 2000ءمیں ریلیز ہوا 1997ءمیں سونگ گرو آف پیس البم بندے ماترم میں گایا جس کے موسیقار اے اررحمان تھے۔
ایک رپورٹ کے مطابق خان کا وزن 300پونڈ تھا اور وہ بہت دنوں سے بیمار بھی تھے 16اگست 1997ءکو ان کی موت ہارٹ اٹیک ہونے کی وجہ سے ہوئی جب ان کی عمر 48سال تھی ۔ یوں دنیا کا ایک عظیم موسیقار اور گائیک ہم سے جدا ہو گیا۔ جھنگ روڈ فیصل آباد پر واقع کبوتراں والا قبرستان میں ان کی تدفین ہوئی ۔
گو کہ نصرت فتح علی خان صاحب کم عمری میں چل بسے لیکن وہ اپنا کام دنیا میں چھوڑ گئے کہ رہتی دنیا تک ان کا نام ان کا کام ہمارے دلوں میں زندہ رہے گا۔ ان کا بہت سا را کام ان کی وفات کے بعد منظر عام پر آیا۔